Showing posts with label Urdu. Show all posts
Showing posts with label Urdu. Show all posts

Saturday, January 12, 2013

ذہنی معذوروں کی پہنچان

اصلی تصویر کا لنک: davidicke.com

بلھے شاہ نے خوب فرمایا تھا: "علم پڑھیا اشراف نا ہوون، جھیڑے ہوون اصل کمینے"۔ کمینے کا لفظ بطور گالی کے استعمال نہیں کیا گیا ہے، بلکہ اپنے اصل معنوں میں لکھا گیا ہے۔ جس کے معنی ہوتے ہیں : 'کم ہونے کی حالت'۔ اس قبیلہ کے لوگوں میں عقل کی شدید کمی ہے، ان کے دماغ زندان میں ہیں یا کسی کے قبضے میں۔


لوگوں کا ایک قبیلہ ایسا بھی ہے جسکی مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی۔ ماشاءاللہ ان کے پاس ڈگریاں بھی ہیں، انٹرنیٹ بھی استعمال کرتے ہیں، جدید موبائل بھی ہیں جن پر لمحہ با لمحہ تسخیرِ کائنات ہو رہی ہے، انسئکلوپیڈیا کی دوکان بھی گھر میں لگی ہوئی ہے، انگریزی، ریاضی اور سائنس بھی پڑھی ہوئی ہے لیکن مسئلہ یہ کہ اس سب کے باوجود اس قبیلہ کے لوگوں کو مسئلہ سمجھ ہی نہیں آ پاتا۔

بلھے شاہ نے خوب فرمایا تھا: "علم پڑھیا اشراف نا ہوون، جھیڑے ہوون اصل کمینے"۔ کمینے کا لفظ بطور گالی کے استعمال نہیں کیا گیا ہے، بلکہ اپنے اصل معنوں میں لکھا گیا ہے۔ جس کے معنی ہوتے ہیں : 'کم ہونے کی حالت'۔ اس قبیلہ کے لوگوں میں عقل کی شدید کمی ہے، ان کے دماغ زندان میں ہیں یا کسی کے قبضے میں۔

یہ بیچارے ڈگریاں تو لاد لیتے ہی جو ردی کا کام کرتی ہے اور دکھاوے کے کام آتی ہیں. یہ مفلوج دماغ والے بھی اس کو حاصل کرلیتے ہیں کیونکہ پیٹ کا مسئلہ ان لوگوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ یہ کمپیوٹر بھی استعمال کرتے ہیں، پر معلومات کے ذرائع تک پہنچنا ان کی بس کی بات نہیں۔ الٹی سیدھی کہانیاں پیدا کرتے ہیں اور پھر الٹی سیدھی خبریں پیدا کرکے طرح طرح کی مزاحیہ تھیوری بناتے ہیں، جس سے ہر سوچنے والے آدمی کو کوفت آتی ہے۔

تو سوال یہ ہے کہ مفلوج لوگوں کے بارے میں لکھا کیوں جائے؟ میں نے ان لوگوں کو پہنچانے کی ایک کوشش کی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بھی ایک تھیوری ہی ہے جس میں ان علامات کا ذکر موجود ہوگا جو ان ذہنی مفلوج لوگوں میں پائی جاتی ہیں۔ کسی میں ایک، کسی میں دو، اور کسی میں سب کی سب۔

وہ باتیں جن سے آپ ان ذہنی بیماروں کا پتہ لگا سکتے ہیں، وہ مندرجہ ذیل موجود ہیں۔ ان کے سارے مفروضے ان ہی باتوں کے گرد گھومتے ہیں:


۱۔ عافیہ قوم کی بیٹی ہے، پر ملال کسی اور کی بیٹی ہے۔ ملالا نے اسلام کا مزاخ بنایا۔ اور اس کو طالبان نے نہیں مارا، بلکہ اول تو اس کو گولی ہی نہیں لگی، یہ سب ایک ڈرامہ ہے۔ دماغ میں گولی لگنے کے بعد آدمی بات ہی نہیں کرسکتا!! یہ لڑکی امریکہ کی سازش ہے۔ "چلو آگر مان بھی لیں کے گولی لگی ہے، تو یہ گولی ہرگز ہرگز طالبان نے نہیں ماری بلکہ امریکہ نے خود ماری ہے تاکہ امریکہ پاکستان پر حملہ کرسکے"۔ لیکن جب پوچھا جائے کہ طالبان خود کہتے ہیں ہم نے مارا ہے؟ ان کا جواب ہوتا ہے، "یہ بھی ایک سازش ہے"۔

۲۔ ہر بات میں اپنے آپ کو "دنیا کا واحد ملک" یا "دنیا کا پہلا ملک" ثابت کرنا۔ مثلاً:

  • دنیا کی بہترین فوج۔
  • دنیا کا پہلا اسلام ایٹم بم۔
  • دنیا کا پہلا نظریاتی ملک۔
  • دنیا کا سب سے بڑا مفکر بھی ہمارا ہے۔
  • دنیا کی ساری نعمتیں ہماری ہیں۔
  • دنیا کے سب سے اہم خطے میں واقع ملک۔
  • ہند کے خلاف جہاد بھی یہاں سے شروع ہو گا۔ (مطلب، مستقبل میں بھی یہ ہر کام میں پہلا ملک ہوگا۔
  • ایشیاء کا سب سے اونچا فوارا یہاں ہے۔
  • دنیا کا پہلا کمپیوٹر وائرس بنانے کا شرف بھی ہمارا ہے۔
  • دنیا کا دوسرا سب سے بڑا مجمع بھی رائونڈ میں ہوتا ہے۔
مطلب ہر کام میں یہ دنیا کو مات دے دیتے ہیں۔ بقول شخصے، ہم امریکہ سے ۱۳ گھنٹے آگے ہیں، اس لئے 365 دنوں میں 13*365 یعنی4745 گھنٹے آگے ہوجاتے ہیں۔ امریکہ چاہے بھی تو ہم سے آگے نہیں نکل سکتا۔ ہے کوئی ہم جیسے!

۳۔ گیارہ سال کی بچی پر توہینِ قرآن کے الزام کو ثابت کرنے کیلئے اس کو بیس سال کا ثابت کرنے کی سرجوڑ کوششیں کرنا۔ بس کسی طرح اس کو پھانسی لگ جائے، تو عالمِ کفر پر ہمارا روب قائم ہو جائے گا۔ اس کے بعد کوئی توہین نہیں ہوگی۔

۴۔ ممتاز قادری کو غازی علم دین شہید قرار دینا۔ اور سلمان تاثیر کا جنازہ پڑھنے والوں یا اس کی تعریف کرنے والوں کو کمتر مسلمان سمجھنا۔

۵۔ ایماندار لوگوں کو غدار کہنا۔ مثلاً، حسین حقانی، حسن نثار، ڈاکٹر مبارک علی، پرویز ہود بھائی، ڈاکڑ فصل الرحمان انصاری، ڈاکٹر عبد السلام، شوکت عزیز، بینظیر بھٹو، عاصمہ جہانگیر، اور انصار برنی کو بھی غدار گرداننا۔

دوسری طرف ان ذہنی مفلوج لوگوں کے ہیرو ہیں: انصار عباسی، اوریا مقبول، ہارون الرشید، زید حامد، لال مسجد کے مولانا، ضیاء الحق اور قدرت اللہ شہاب قسم کے بیوروکریٹ۔

۶۔ پاکستان میں اسلامی دہشتگردوں کا کوئی وجود نہیں۔ بلکہ طالبان تو پاکستان کے دوست ہیں۔ پاکستان میں ہونے والے فرقہ ورانہ فسادات سب یہود و ہنود کی سازش ہے۔ ضمناً، جو اس مفروضہ کو نہیں مانتا وہ بھی اس سازش کا حصہ بن گیا ہے۔ بیچارا بھٹک گیا ہے۔ حریمِ جاں میں بھٹک رہا ہوں۔ اللہ اس بھٹکے ہوئے آدمی کو ہدایت دے!

۷۔ افغانستان اور پاکستان میں موجود تحریک طالبان میں تفریق کرنا اور ثابت کرنا کہ امریکہ بس کچھ دنوں میں ہار جائے گا۔ اس کے بعد 'سنہرا دور' پھر شروع ہو جائے گا جس میں سارے ظلم ختم ہو جائیں گے۔ خصوصاً، عورت کی بے انتہاہ "عزت" ہوگی۔

۸۔ یہود کو برا کہنا لیکن مرتے وقت ان ہی کی ایجاد کردہ دوائیوں کو استعمال بھی کرنا۔ ان کی بنائے ہوئے جہازوں پر بیٹھ کر حج پر بھی جانا، اور رمضان کا چاند بھی ان ہی کے بنائے ہوئے آلات سے دیکھنا۔

۹۔ بلوچستان میں ہونے والے ہزارہ شعیہ برادری پر حملوں کو بھارت کی سازش قرار دینا۔

۱۰۔ کراچی میں اسلامی انتہا پسندوں کے وجود کو ناماننا اور ہر برائی کو ایم-کیو-ایم کے سر ڈالنا۔ اور اگر اسلامی دہشت گرد تنظیموں کے وجود کو مان بھی لیں تو لاچاری کا تائثر دینا۔ "چلو صحیح ہے ۱۰ لوگوں مرگئے۔ آ پ اپنی نماز پڑھیں، اور بزرگوں کے کام آئیں۔ یہ سب خود ہی صحیح ہو جائے گا"۔


۱۱۔ اسلام اور پاکستان کو لازم و ملزوم قرار دینا۔ پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ قرار دینا۔ اور طرح طرح کی عجیب و غریب چیزوں کے ذریعے اس خیال کو ثانت کرنا۔ مثلاً،

  • مدینہ طیبہ : "مدینہ" یعنی "رہنے کی جگہ" اور "طیبہ" یعنی "صاف"۔ پاکستان : "پاک" یعنی صاف۔ "استان" یعنی "رہنے کی جگہ"۔ یعنی دونوں ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔
  • ۲۷ رمضان کو قرآن کی پہلی وحی نازل ہوئی، پاکستان بھی اس ہی شب وجود میں آیا۔
  • پاکستان کیلئے بھی ہجرت ہوئی جس طرح مہاجرین نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تھی۔

۱۲۔ پاکستان قیامت تک کیلئے بنا ہے۔ اس کو کوئی طاقت روئےِ زمین سے نہیں مٹا سکتی۔ بنگلا دیش کا بننا ہند کی چال تھی، جس میں کچھ قصور ہمارا بھی تھا، لیکن اگر بھارت کی چال نہ ہوتی تو بنگلادیش کبھی نہیں بنتا۔

۱۳۔ یہ ماننا کہ پاکستان دو قومی نظریہ کے نام پر وجود میں آیا، جس کی تشریح علامہ اقبال نے الہ آباد خطبہ (1930) میں کی تھی۔ لیکن بنگلادیش پر دو قومی نظریہ لاگو نہیں ہوتا۔ وہ ہنود سازش تھی، جبکے پاکستان ایک الہامی پروگرام کا حصہ۔


۱۴۔ اور آخر میں جو ان باتوں پر ایمان نہیں رکھتا، وہ سب سے بڑا غدار ہے۔

Sunday, October 21, 2012

فنکار ڈاکٹر

فنکار. ذرائع: jalopnik.com

نہ باپ کو احساس ہوا کہ آدمی ڈاکٹر نہیں ہے، نہ بچے کو، اور شاید اب ڈاکٹر صاحب خود بھی بھول گئے ہوں گے کہ وہ ڈاکٹر نہیں ہیں۔

"ڈاکٹر صاحب! میری سیدھی آنکھ میں کئی دنوں سے درد ہورہا ہے، معلوم نہیں کیوں"، میرے برابر بیٹھے آٹھوئیں جماعت کے لڑکے نے ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں داخل ہوتے ہی بولا۔



مجھے ڈاکٹر صاحب کے کمرے کا حال معلوم نہیں کیونکہ دروازے کے دوسری طرف کا منطر میری نظر میں نہیں آرہا تھا۔ مگر کیونکہ دکان بہت چھوٹی سی تھی، اس لیے آواز صاف صاف سنائی دے رہی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کی آواز زید حامد کی دوسری کاپی تھی، پر ہنسی مِیرا جیسی تھی، بہت ہی باریک سی۔



"بیٹا آپ کا نام کیا ہے"، ڈاکٹر صاحب نے دھیمی آواز میں دریافت کیا۔

"حزیفہ"، بچے نے جواب دیا

"ماشاء اللہ! بہت خوبصورت نام ہے"، ماشاءاللہ بلکل اس طرح بولا جیسے عامر لیاقت کی زبان سے آپ نے سنا ہوگا۔
"حزیفہ بیٹا، آپ اپنی ٹھوڑی مشین پر رکھ دیں، اور جس طرح میں کہوں ، ویسے ویسے آپ کو کرنا ہے، بسم اللہ۔۔۔۔"
"ٹھوڑی؟؟"
"یعنی chin", ڈاکٹر نے جواب دیا۔




میں دکان پر اپنی عینک کا لینس خریدنے کئلیے گیا تھا، پر مجھے ڈاکٹر صاحب کی آواز ایسی لگ رہی تھی جیسے میں نے پہلے کہی سنی ہو، یہ دکان میرے محلے میں ہی ہے، اس لیے مجھے اور شک ہوا کہ یہ کوئی جانی پہچانی آواز ہے، پر یہ آواز کس کی تھی، اس کی تصویر ابھی بھی ذہن میں نہیں آرہی تھی۔ میں بھی ڈاکٹر صاحب کا انتطار کرنے کے بہانے مختلف قسم کے فریم دیکھتا رہا۔

"حزیفہ بیٹا، آپ کی دائیں آنکھ کا نمبر ۲ ہے، جب کہ بائیں آنکھ کا کچھ کم ہے"، ڈاکٹر نے کہا۔ مجھے آواز کچھ بناوٹی سی محسوس ہوئی، جیسے آدمی زبردستی اپنا لہجہ بدلنے کی کوشش کررہا ہو، جیسے ہمارے یہاں عام طور پر لوگوں کا مزاج ہے کہ مصنوعی طریقوں سے جلدی بڑا آدمی بن جائیں، یہی چیز مجھے اس لہجے میں سنائی دے رہی تھی۔




اس ہی جملے پر گفتگو ختم ہوئی اور ڈاکٹر صاحب اپنے حجرے سے باہر نکلے۔ میں حیران رہ گیا!!



وہ سفید ڈنٹونک والے دانت، وہ ہی کالی ٹوپی، وہ ہی سفید بھارتی کڑائی والی کمیز، وہ ہی بغیر فریم کا چشمہ لگائے ایک معصوم سا مجسمہ اپنے حجرے سے نکلا۔ آج سے کوئی دو سال پہلے یہ صاحب جو اپنے آپ کو "ڈاکٹر صاحب، ڈاکٹر صاحب" کہلوا رہے تھے، اس ہی دکان پر عینک فروخت کرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب اس دکان پر کوئی اور ہوا کرتے تھے، ان کے پاس واقعی تین چار ڈگریاں تھی اور ان کے پاس یہ حق بھی تھا کہ وہ اپنے آپ کو ڈاکٹر کہلوائیں۔



مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ اتنی جلدی یہ صاحب بھی ڈاکٹر بن گئے، ویسے بھی ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے، اصلی ہو کہ نکلی۔



"حریفہ، آپ کو کون سا فریم چائیے؟"، ڈاکٹر نے دریافت کیا
"رے بن"
"ہی ہی ہی، انکل، یہ صحیح معنوں میں آپ کے پیسے مُکانا چارہا ہے"، ڈاکٹر نے حزیفہ کے والد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔




نہ باپ کو احساس ہوا کہ آدمی ڈاکٹر نہیں ہے، نہ بچے کو، اور شاید اب ڈاکٹر صاحب خود بھی بھول گئے ہوں گے کہ وہ ڈاکٹر نہیں ہیں۔ اب تو وہ فر فر مشکل داوں کے نام بھی لے رہے تھے۔



مجھے نہیں معلوم کہ ان صاحب نے میری شکل پہنچانی یا نہیں، کیونکہ دو سال پہلے، وہ مجھے عینک بیچنے میں بری طرح فیل ہوگئے تھے۔ مجھے ان کی شکل صرف اس لیے یاد رہی کیونکہ ان کی آواز زید حامد جیسی تھی۔



میں نے اپنی عینک لی اور دکان سے باہر نکل آیا۔ 



میں نے نتیجا یہ نکالا کہ فنکاروں کو کسی ڈگری کی ضرورت نہیں ہوتی، وہ اس ملک میں ہر طرح کامیاب ہیں۔

Wednesday, October 17, 2012

پاکستان کی جدید الف بے

ان جدید حروف تہجی میں "ث"، "ڑ"، اور "ژ" سے کوئی لفظ شروع نہیں ہوتا۔ امید ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ لوگ نئے الفاظ بھی ایجاد کرلیں گے، جس طرح یہ الٹے سیدھے دلائل دریافت کرلیتے ہیں۔

ملالہ کے واقعے سے ایک بات کا پتہ ضرور چلا کہ ابھی بھی اعتدال پسند آواز زندہ ہے۔ ابھی بھی یہ آواز اپنی بات منوانے کی کوشش کررہی ہے، ابھی بھی یہ آواز دریا بہ دریا، کوہ بہ کوہ امن کا پیغام آگے بڑھا رہی ہے۔ یہی وہ آواز ہے جو اس ملک میں تبدیلی لائے گی اور ترقی کی ذامن بنے گی۔

لیکن جیسے کہ میں نے پچھلے بلاگ میں لکھا تھا، ذہنی مریضوں کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جن کو اس انسانیت سوز واقعے میں بھی سازش کی 'خوشبو' آرہی۔ ان کی عجیب و غریب دلائل کے بارے میں میں پچھلی بار لکھ چکا ہوں۔ نقل دلیل دلیل نباشد۔


آج میں ایک فرضی اردو حروفِ تہجی کی کتاب کا خاکہ پیش کررہا ہوں۔ یہ فرضی کتاب ذہنی مریضوں کیلئے ہے۔ اس کتاب کے کئی الفاظ آپ روز ٹی-وی، اخبار، اس-ایم-اس، انٹرنیٹ، وغیرہ پر پڑھ چکے ہیں۔ یہ الفاظ بہت تیزی کے ساتھ اعتدال پسند سماج کا حصہ بن رہے ہیں، اس لیے اب وقت آکیا ہے کہ ان کو ایک جگہ اکھٹا کیا جائے۔



مریضوں کی اردو


ان جدید حروف تہجی میں "ث"، "ڑ"، اور "ژ" سے کوئی لفظ شروع نہیں ہوتا۔ یہ بلکل ویسی ہی بات ہے جیسے کہ عربی میں "پ" نہیں ہوتا اور فارسی میں "ڈ" نہیں ہوتا۔ امید ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ لوگ نئے الفاظ بھی ایجاد کرلیں گے، جس طرح یہ الٹے سیدھے دلائل دریافت کرلیتے ہیں۔

Sunday, October 7, 2012

کرکٹ اور میں

ایک کرکٹ میچ کا منظر۔ ذرائع: davidsanger.com


کھیل عام طور پر قومی پرستی کے جذبات پیدا کرتا ہے۔ ان جذبات سے فرد کا قوم کے ساتھ چند لمحوں کا رشتہ قائم ہوجاتا ہے، اور وہ اس رشتے کی وجہ سے اپنے اوپر ہونے والی تکلیف کو بھی بھول جاتا ہے۔



عجیب اتفاق کی بات ہے کہ میں نے ایک بھی کرکٹ میچ نہیں دیکھا، پر میری کرکٹ پر معلومات اتنی ہی تھی جتنی اسکی جس نے سارے میچز مکمل انہماک کے ساتھ دیکھے تھے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ پاکستانی اخباروں میں شہ سرخی پر ان کرکٹ میچز کی خبر ہوتی تھی۔ اگرچہ ملک میں فرقہ وارنہ فسادات روز کا معمول ہیں، ہندو ملک چھوڑ کر بھارت جارہے ہیں، چرچ جلایا جارہا ہے، ۱۱ سالہ بچی ہر توہین کے مقدمات چل رہے ہیں، بھتہ خوری عام ہے، ٹارگٹ کلنگ کا بھول بالا ہے، لیکن ان سب 'چھوٹی خبروں' کے باوجود اہم خبر یہی تھی کہ آج پاکستان فلانے ملک سے کھیلے گا، آج فلانے ملک کو ہرا دیا، آج فلانے سے جیت گیا، علی ہذا القیاس۔

اس کے علاوہ دوسرا ذریعہ معلومات فیس بک تھا۔ اس پر بھی مزے مزے کے تبصرے پڑھنے کو ملے اور کرکٹ کی بہت ساری معلومات حاصل ہوئی۔ بہت سارے تبصروں میں بھارت کا مزاخ بنایا گیا تھا، کئی ایک میں پاکستان کو کرکٹ کا بادشاہ قرار دینے کی کوشش صاف نظر آرہی تھی، کچھ ایسے بھی تھے جن کو پاکستان کی جیت سے زیادہ بھارت کی ہار پر خوشی تھی۔ ہر آدمی کو اپنی رائے دینے کا حق ہے!


میرا خیال یہ ہے کہ کھیل کو کھیل ہی سمجھنا چاہیے۔ اصل میں کل ۲۲ لڑکے کھیل رہے ہیں۔ اب اس کو ملکوں کا مسئلہ بنانا کوئی عقل مندی کی بات نہیں۔ کوئی پیلی کمیز پہنا ہوا ہے، تو کوئی ہری یا نیلی۔ کمیزوں کے رنگوں کا ہی تو فرق ہے ان لڑکوں میں! اصل چیز تو کھیل ہے، اور میری رائے یہ ہے کہ برصغیر کے تمام ممالک کو ایک ٹیم بن کر کھیلنا چاہیے۔ کیوں نا تین پاکستانی کھلاڑی بھارتی ٹیم میں چلے جائیں اور تین ہندیستانی کھلاڑی پاکستانی ٹیم میں آجائیں۔ اس سے دونوں برادر ملکوں میں محبت بھی بڑھے گی اور کھیل کو کھیل کی طرح کھیلا جائے گا، نہ کہ دو ملکوں کے درمیان جنگ کی طرح۔

ویسے بھی یہ ۲۲ لڑکے کسی ملک کے لیے تو نہیں کھیل رہے ہوتے۔ اگر ملٹی نیشنل کمپنی ان کو اسپونسر نہ کریں تو یہ لڑکے کرکٹ کھیلنا تو درکنار، کرکٹ کا بلا بھی نہیں خرید سکتے۔ کھیل حقیقی معنوں میں ایک بہت لمبا اشتہار ہوتا ہے۔ اس اشتہاری موہم میں آپ کو طرح طرح کی کمپنیاں نظر آئےگی۔ اور یہی اس پورے کھیل کی جان ہوتی ہے کہ کتنی کمپنیوں نے کھیل کو اسپونسر کیا ہے۔ اب رہا سوال شاہد خان آفریدی کا یا دھونی کا تو ان میں فرق صرف کمیز کے رنگ کا ہے، باقی طور طریقے، زبان، کرکٹ اسٹائل، وغیرہ سب ایک ہی ہے۔



کھیل عام طور پر قومی پرستی کے جذبات پیدا کرتا ہے۔ ان جذبات سے فرد کا قوم کے ساتھ چند لمحوں کا رشتہ قائم ہوجاتا ہے، اور وہ اس رشتے کی وجہ سے اپنے اوپر ہونے والی تکلیف کو بھی بھول جاتا ہے۔ مثلاً، میرے محلے میں لڑکوں نے مل کر ایک بڑی سی اسکرین سڑک پر سجائی تھی، جس پر پاکستان کا میچ سب لوگ مل کردیکھ رہے تھے۔ جب ۹:۰۰ بجے تو ایک لڑکا بولا کہ "شکر اللہ کا کہ آج لوڈ شیڈینگ نہیں ہوگی!"۔ ویسے اگر کوئی میچ نہ ہوتا تو اس لڑکے کے منہ سے کچھ ایسے الفاظ برآمد ہوتے، "اس ملک میں لائٹ ہے نہ پانی"۔ لیکن اس کرکٹ میچ کی وجہ سے اس پر ایک دوسری قسم کی کیفیت تاری ہوجاتی ہے، اور وہ اپنے بنیادی حق کو ثانی درجے میں شمار کرنے لگتا ہے۔ اگر حقیقی طور پر دیکھا جائے تو اس کھیل میں پاکستان کے جیتنے یا ہارنے سے اس کی ذاتی رندگی پرکوئی اثر نہیں ہوگا، لیکن پھر بھی وہ اس کھیل کو مکمل انہماک سے دیکھتا رہا۔



میں بس میں سفر کررہا تھا تو ایک صاحب نے فرمایا، "پاکستان نے جان بوج کر انڈیا کو جیت دی، کیونکہ اگر پاکستان جیت جاتا تو وہاں موجود مسلمانوں کی زندگیاں خطرے میں آجاتیں"۔ یہ اس چند لمحوں کی قوم پرستی کی انتہائی شکل ہے!

اب کیونکہ پاکستان کھیل سے باہر ہوگیا ہے، اس لیے قوم پرستی کا سحر بھی کچھ کم ہوا ہے۔ اب وہ ۱۱ لڑکے کسی اور اشتہار میں نظر آئیں گے یا کسی اور نجی کمپنی کے لیے کرکٹ کھیلتے ہوئے، جنکہ عام شہری اگلے کرکٹ میچ کا انتظار ہی کرتا رہے گا۔


Sunday, August 19, 2012

زبردستی کی عیدیں

چاند کا ایک حسین منظر۔ ذرائع:  home.hiwaay.net 


کل رات ٹی-وی پر چاند کی خبر سن کر بڑا عجیب سا لگا۔ خیر چاند تو نہ نکلا پر میری ہنسی ضرور نکل گئی۔ پاکستان بھر کا میڈیا رویت ہلال کمیٹی کے دفتر پر پہنچا ہوا تھا۔ بیس درجن سے زائد کیمرا پرسن ، دس درجن سے رپورٹرز، اور ایک درجن سے زائد ٹی-وی چینلز۔ لگ تو ایسا رہا تھا جیسے کائنات کا کوئی نیا راز فاش ہونے کو ہے، پر ایسا کچھ نہ ہوا۔ ایک عدد چاند تھا، اور کچھ بھی نہیں۔ کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا، بلکہ چوہا بھی نہیں نکلا۔ 


بہر حال، مجھے اس پہاڑ اور چوہے کے کھیل سے زیادہ دلچسپی نہیں۔ میری دلچسپی تو اعلان کے بعد ہونے والی سماجی کیفیت سے ہے۔ میڈیا والے حضرات، مفتی منیب الرحمٰن کی جان چھوڑ کر عوام کے پاس پہنچ گئے۔ اور اس 'بریکنک نیوز' پر ان کا تجزیہ معلوم کرنے لگے۔ سوشل میڈیا پر بھی اس خبر کو بحث کا موضوع بنایا گیا۔ 

جتنی ٹرٹر پاکستان کے لوگوں نے 'چاند کے اہم مسئلے' پر کی، اگر اتنی ہی آواز چترال سے لے کر کراچی تک اور معصوم ہزارہ کے لوگوں کے قتل عام پر اٹھاتے تو شاید، عید کی 'رسم' کچھ اچھی بھی لگتی۔ یہ عید تو چودہ اگست جیسی ہے، وہ بھی بلا وجہ منایا جاتا ہے، یہ بھی بلا وجہ منائی جارہی ہے۔ 

اور اس چاند پر اتنا شور؟ کوئی صاحب فرما رہے ہیں کہ ماہر فلکیات کے سپرد کردو، کسی کا کہنا ہے کہ ایک نیا کلینڈر بنا دو، ایک اور جید رائے یہ ہے کہ عید پوری دنیا میں مکہ کہ حساب سے منانی چاہیے، جس طرح کرسمس پوری دنیا میں ایک دن بنتی ہے، عید بھی اس ہی طرح منانی چاہیے۔ 

مجھے محسوس ہوتا ہے کہ چاند پر مفتی منیب الرحمن سے زیادہ مسئلہ میڈیا کو ہے، جو زبردستی چھوٹے صوبوں پر ریاست کا جبر نافذ کرنے میں مدد دے رہا ہے۔ یہی ایک فسطائیت طرزحکومت ہے جو اقلیت کی آزادی کو قبول نہیں کرتا اور ان کا مزاق بناتا ہے۔ 

میرے خیال میں اگر چاند پنجاب میں دیکھا گیا ہوتا تو اتنا شور نہیں مچتا، لیکن کیونکہ یہ چاند 'غدار پٹھانوں' نے دیکھا ہے، اس لیے اس کا مزاق بنایا جارہا ہے۔ ان کو یہ بتایا جارہا کہ وہ چاند بھی نہیں دیکھ سکتے۔ چاند پر بھی ان کو پاکستان کا جبر قبول کرنا ہے۔ 

جن کو عید پنجاب کے ساتھ منانی ہے، وہ پنجاب کے ساتھ منائیں، پر اگر کوئی پنجاب کے ساتھ نہیں منانا چاہتا، تو پنجاب شاید پاکستان کا ٹھکے دار تو ہے، پر اسلام کا نہیں۔ 

مجھے جتنے پیغامات پڑھنے کو ملے اُن میں 'پٹھانوں' کا تمسخر بنایا گیا۔ سوال یہ کہ اگر ان کو چاند نظر آگیا ہے، تو ضروری ہے کہ ان پر ریاست (جس کا ۵۲٪ مالک پنجاب ہے) کی مرضی جبراً نافذ کی جائے؟ ان کو بھی اتنا ہی حق ہونا چاہیے، جتنا پاکستان کی دوسری قوموں کو ہے۔ ہر صوبے کو اپنی اپنی عید الگ منانی چاہیے، اگر ان کو چاند نظر آگیا ہے۔ ریاست کو حق نہیں کہ وہ جبر کے ذریعے اپنی مرضی کو نافذ کرے۔ 

میری طرف سے پشاور کے لوگوں کو دو بار مبارک باد۔ ایک تو رمضان کے اختتام کی اور دوسری، ریاستی جبر کے خلاف کھڑے ہونے کی۔

Saturday, August 11, 2012

جاہلوں سے دوری


دنیا کی سب سے بڑی بُرای شاید جہالت ہے۔ اسکا احساس مجھے کچھ دن پہلے ہوا جب میں چند بےوقفوں سے آغا وقار کے بارے میں بات کررہا تھا۔


کچھ ماہ قبل میں نے ڈیل کارنیگی کی شہرہ آفاق تصنیف "دوست کیسے بنائے جائیں اور لوگوں پر کس طرح حاوی ہوا جائے(How To Win Friends And Influence People) پڑھی تھی، میں نے سوچا کہ ان اصولوں کو اپنے کچھ جاننے والوں پر استعمال کرکہ دیکھا جائے کہ آیا یہ ہر جگہ قابل عمل ہیں یا صرف آمریکہ، یورپ اور ان جیسے ممالک میں ہی ان اصولوں کو اپنایا جاسکتا ہے۔



میں ٹائم ضائع کیے بغیر یہ لکھ دیتا ہوں کہ ڈیل کارنیگی کے چند اصول بے انتہا کرامت ہیں لیکن چند پر عمل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے سامنے ایک "منطقی انسان" کھڑا ہو۔ منطقی انسان وہ ہوتا ہے جو اسی لمحے بحث ختم کردے جس لمحے استدلال ختم ہوجائیں۔ وہ انسانوں کی طرح سامنے والے کی بات سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور جب بات سمجھ آجائے تو اس بات کو بھی اپنی فکر میں محفوظ کرلیتا ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ مخالف رائے کو قبول کرلے، قبولیت کے عمل میں ہمیشہ کچھ وقت درکار ہوتا ہے، لیکن یہ ضرور ہے کہ وہ کبھی بھی اپنی رائے کو اپنے عقیدے یا اپنی انا کا مسئلہ نہیں بناتا۔ دوسری طرف ایک "غیر منطقی انسان" وہ ہوتا ہے جوکہ اپنی رائے کو صحیح کہلوانے کے لیے ہر علمیت کا انکار کرتا ہے، وہ عقلی دلائل، تاریخی واقعات اور سائنسی حقیقتوں ، سب کا انکار کردیتا ہے۔ اور اپنی جہالت کے جھوٹے طلسم کو ثابت کرنے لیے طرح طرح کی الٹی سیدھی باتیں کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ کیا تعلق رکھا جائے؟ ایسے 'دوستوں' کے بارے میں کیا رائے رکھی جائے؟ یہ سوالات کسی اور مضمون کیلئے چھوڑ دیتا ہوں۔ آج کا موضوع ہے "حضرت آغا وقار عرف پانی والے بابا"۔

جیسا کہ میں نے شروعات میں لکھا ہے، گفتگو بے وقفوں کہ ساتھ تھی، لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ اس کا اندازہ مجھے بہت وقت گزرنے کے بعد ہوا، جس کا اب کوئی فائدہ نہیں تھا۔

گفتگو کی شروعات اس طرح ہوئی کہ ٹی-وی پر اچانک سےآغا وقار اور ان کی ایجاد کی خبر دیکھنے کو ملی۔ اس پر افتخار صاحب (ان کا اصل نام یہ نہیں ہے) نے کہا، "یہ دیکھو! بہت جلد پاکستان میں ہر گاڑی پانی پر چلنے لگے گی، ہمارا قیمتی زرِ مبادلہ جو پیٹرول خریدنے میں ضائع ہوتا ہے، وہ دوسرے شعبوں میں لگ سکے گا۔ حکومت بھی اس موضوع میں انٹرسٹ (interest) لے رہی ہے۔ آج کی خبر ہے کہ راجہ پرویز اشرف بھی ۵۰ لاکھ روپے کی رقم پانی والی گاڑی کے منصوبے کیلئے مختص کررہے ہیں، سندھ حکومت بھی اس پروجیکٹ میں دلچسپی رکھتی ہے۔ انشاء اللہ پاکستان کی تقدیر بدلنے والی ہے۔"



یہ ان کی باتوں کا لبِ لباب ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھ سے یہ 'بکواس' بلکل نہیں سنی گئی۔ کئی بار ان کی بات کاٹنے کی 'بداخلاقی' سرزد ہوئی۔ لیکن مجھے اس 'بد اخلاقی' پر کوئی افسوس نہیں۔ ایسے لوگوں پر یہ ضرور ثابت کرنا چاہیے کہ وہ اپنی جہالت میں ابتری کے آخری درجہ پر پہنچ گئے ہیں۔ اگر ان کی عمر آپ سے زیادہ ہے، تو اس میں ان کا کوئی کمال نہیں، بات صرف اتنی ہے کہ خدا نے ان کو دنیا میں آپ سے پہلے بھیج دیا تھا۔ اس میں نہ کوئی فخر کی بات ہے اور نہ کوئی شرم کی بات ہے۔ فارسی کا مقولہ "خطا گرفتنِ بزرگاں خطا است" شاید انٹرنیٹ کے اس دور میں ہربزرگ کے لیے درست نہیں۔ میں تو اس مقولے میں اس طرح ترمیم کروں گا، "احتمالاً،خطا گرفتنِ بزرگاں خطا باشد"۔ (امکان ہے کہ بزرگوں کی خطا پکڑنا خطا ہو، یعنی ضروری نہیں ہے کہ وہ ہر بار صحیح ہوں۔)

خیر یہ باتیں ایک طرف، لیکن کیونکہ افتخار صاحب کا سائنس سے کچھ تعلق رہا ہے، اس لیے میں نے ان سے پوچھا، "لیکن یہ انجن تو تھرموڈائینمکس (thermodynamics) کے دوسرے اصول کے خلاف جارہا ہے، آپ آسمانوں پر قلعے کیوں تعمیر کررہے ہیں؟"


"کمیل، تمہارا مسئلہ یہ ہے کہ تم کو پاکستان میں کوئی اچھی چیز نظر نہیں آتی، ہر چیز پر تنقید۔ کیاتھرموڈائینمکس کے اصول کسی آسمانی صحیفے میں لکھے ہیں، کہ ان کی خلاف ورزی نہیں ہوسکتی۔ انسانوں کے بنائے ہوئے اصول ہیں، آج کچھ ہوں گے، کل کچھ اور ہوجائیں گے۔"

جہالت کی پہلی نظیر، بات سائنس کی ہورہی ہے، اور اچانک چھلانگ آسمانی صحیفے پر مار دی! اور پھر سائنس کے بنیادی اصولوں پر بغیر کسی دلیل کے شک! اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ انسانوں کے بنائے ہوئے اصول نہیں ہیں، بلکہ انسانوں کے دریافت کردہ اصول ہیں۔ یہ اصول اسی دن وجود میں آگئے تھے جس دن کائنات وجود میں آئی تھی۔


خیر آگے سنئیے، " کیا خصرت آدم کے زمانے میں کوئی سوچ سکتا تھا کہ ٹی-وی ایجاد ہوجائے گا۔ کیا آج سے سو سال پہلے کوئی ایٹم کی طاقت کا سوچ سکتا تھا۔ کیا کوئی کمپیوٹر کی ایجاد کا سوچ سکتا تھا۔ بلکل نہیں! یہ سب ناممکن انسانی کاوشوں سے ممکن بنے ہیں"

کمزور دلیل کی دوسری نظیر، بات سائنس کے اصولوں کی ہورہی ہے، اور افتخار صاحب نے چھلانک ایجادات پر لگا دی۔



"آپ جو چیزیں بتا رہے ہیں وہ فزکس کے اصولوں کی خلاف ورزی نہیں کرتی ہیں۔ کمپوٹر، ٹی-وی، اٹیم کی طاقت کی دریافت، سب کچھ فزکس کے اصولوں کے تحت ہی ہوا ہے، اصول کی مخالفت میں نہیں۔ آغا وقار کی ایجاد فزکس کے اصولوں کے خلاف ہے، یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ میرا گھر ہوا میں اڑ رہا ہے، یہ دو جمع دو چھ ہوتا ہے۔"



"ہاں تو اگر ایسا ہے، تو میں کہوں گا کہ تھرموڈائینمکس کے اصول یا تو آپ نے غلط سمجھے ہیں یا اب ان میں ترمیم کی ضرورت ہے۔"

مجھے تو اس جملے پر بے انتہا ہنسی آئی۔ ہنسی چھپانے کی لیے میں بول پڑا،"چلیں میں نے تو غلط ہوں، آپ کی ڈاکٹر ہود بھائی اور ڈاکٹر عطا الرحمن کے بارے میں کیا رائے ہے؟"

"ان دونون کی میں بھی عزت کرتا ہوں لیکن ڈاکٹر ثمر مبارک مند اور ڈاکٹر قدیر خان نے اس ایجاد کی حمایت کی ہے"۔


جہالت کی تیسری نظیر۔ انھوں نے سائنس کو کسی تقلیدی سلسلے میں تبدیل کردیا ۔ آپ حضرتہود بھائی کی پیروی کریں اور میں حضرت قدیر خان کی کروں گا۔ اس پر میں کیا کہتا، افتخار صاحب کو سائنس کا تھوڑا بہت علم ضرور تھا، وہ کوئی گاوں میں نہیں ریتے تھے کہ ان کو یہی علم نہ ہو کے سائنس کیا ہوتی ہے۔ اس جملے پر مجھے ان کی ذہنی سطح کا اندازہ ہوگیا۔ میں چاہتا تھا جلد سے جلد بات ختم ہو، لیکن انھوں نے ایک نیا چٹکلا چھوڑ دیا جو کے ان تمام لطیفوں سے بڑا لطیفہ تھا۔

"اگر یہ ایجاد عام ہوجاتی ہے تو پوری دنیا میں پیٹرول کی کمپنیاں بند ہوجائیں گی، امریکہ کبھی بھی اس بات کی اجازت نہیں دے گا کہ تیل کے ذخیروں پر اس کی گرفت کمزور ہو۔ اگر یہ ایجاد عام ہوجاتی ہے تو، امریکہ جس تیل کو عراق سے چوری کررہا ہے، تو اس کا کیا ہوگا؟"


ڈیل کارنیگی نے بلکل صحیح لکھا ہے، اگر آپ کو کوئی سخت بات کہنی ہو تو پہلے سامنے والے کو یہ تائثر ضرور دو کہ وہ کبھی غلط نہیں ہوسکتا اور آپ کے غلط ہونے کا امکان ہمیشہ رہتا ہے۔


میں نے یہ جملے کہہ کر گفتگو ختم کی، "میں آپ کی رائے سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔ مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے۔ واقعی اس کے پیچھے امریکا ہی ہے۔ لیکن ایک بات میں ضرور کہوں گا کہ آپ کی عمر ۴۰ سے اوپر ہوچکی ہے لیکن ذہنی سطح ابھی بھی بچپنے والی ہے۔"

Wednesday, July 25, 2012

دو روپے کا سکہ



میں دو روپیے کے سکے کو مسلسل ہوا میں گھما رہا تھا۔ سکہ جب اوپر جاتا تو سورج کی روشنی اس سے ٹکراتی تو سکہ ہوا میں جھلملاتا۔ یہ سارا عمل آنکھوں کو بہت اچھا لگتا اور میں بار بار سکے کو ہوا میں اچھالتا رہتا۔ کبھی سکہ میری ہتھیلی پر گرتا، کبھی میری قمیض پر، اور کبھی میرے بالوں کو چھوتا ہوا زمین پر گر جاتا۔ کبھی میں سکے کو بائیں ہاتھ سے دائیں ہاتھ میں دیتا اور کبھی دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو۔ کبھی میں سکے کو دونوں ہتھیلیوں کے درمیان پھنسا کر خوب ہلاتا۔ سکے کی ہلچل سے ایک باریک سی آواز پیدا ہوتی جو کانوں جو بہت لبھاتی۔ 

دور بیٹھا ایک لڑکا اس سارے عمل کو دلچسپی کے ساتھ دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں سکے کے اشارے پر چل رہی تھیں۔ اگر سکہ اوپر جاتا تو اس کی آنکھیں بھی اوپر جاتیں اور جب وہ نیچے آتا تو اس کی آنکھیں بھی نیچے آتیں۔ شاید اس کو بھی یہ سارا عمل بہت دلچسپ لکھ رہا تھا۔ وہ اپنی آنکھیں دیر دیر میں جھپکتا۔

کچھ دیر بعد، اس لڑکے نے بولا،" بھائی مجھے بھوک لگ رہی ہے۔ یہ دو روپے مجھے دے دیں، میں دو دو روپے جمع کرکے روٹی خرید لوں گا۔ آپ کو دعائیں بھی دوں گا۔"

"بیٹا دو روپے کیوں، میں تم کو آج رات کا کھانا دلوا دیتا ہوں"، میں نے اس معصوم بچے سے کہا۔

اس کی شکل پر ایک مسکان آگئی اور میرا بہت شکریہ ادا کیا۔

"میں تو سوچ رہے تھا آپ اس سکے سے کھیلتے رہیں گے۔" اس نے حیرانی سے کہا۔

"نہیں میرے دوست، میں فارغ تھا اس لیے سکے سے کھیل رہا تھا۔"

"آپ واقعی میں امیر آدمی معلوم ہوتے ہیں، آپ فارغ اوقات میں سکوں سے کھیلتے ہیں؟ میں تو ایک ایک سکے کی بہت حفاظت کرتا ہوں۔ میرے لیے تو ہر پیسہ اہم ہے۔"

معلوم نہیں اس نے یہ جملے کیوں بولے، شاید میں اس کہ کیفیت صحیح طرح سے نہیں جان پایا۔

بھوک بھی کیا دلچسپ کیفیت ہے، آدمی اس کیفیت میں کیا کچھ کرنے کو تیار ہو جاتا ہے، لیکن چند انقلابیوں کے مطابق بھوک کوئی اہم چیز نہیں، ان کے مطابق کوئی شخص انقلاب روٹی اور تربوز کھانے کے لیے تو نہیں لاتا، اس کے پیچھے کوئی بہت بڑا فلسفہ کارفرما ہوتا ہے، پر میرے خیال میں ان انقلابیوں کو کبھی بھوک کا احساس ہی نہیں ہوا، یا اگر ہوا ہو تو اب تک یہ حضرات اس احساس کو بھول گئے ہیں۔ لیکن جو بھی بات ہو، اس بچے کی آنکھوں میں مجھے بھوک نظر آرہی تھی۔ اگر وہ انقلابی زندہ ہوتے تو ان کو بھی یہ بھوک ضرور نظر آتی۔

اس وقت مجھے انسان کی بھوک کا احساس ہوا۔

Saturday, July 7, 2012

یار پیٹر ہگس ہم سے سیکھو۔۔۔۔

پروفیسر پیٹر ہگس

آج کل دنیا میں 'ہگس ذرہ' موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ ماہرینِ طبعیات کا کہنا ہے کہ یہ ذرہ کائنات کے چھپے رازوں کو سمجھنے میں مدد فراہم کرے گا، مثلاً یہ کے معادے میں وزن کہاں سے آتا ہے؟ اور چاند، ستارے، سیارے، کہکشائیں، کیسے آپس میں جڑی رہتی ہیں۔ یورپ کی خبروں سے ایسا معلوم ہوتا ہے شاید یہ بہت ہی بڑی پیش کوئی رفت ہو۔ آپ چاہیں ڈیوچے ویلا دیکھ لیں یا سی-این-این سن لیں، ہر چینل اس کو ایک بہت بڑے 'بریک تھرو' سے مماثلت دے رہا ہے۔ آخری بار اس قسم کی میڈیا کوریج سائنس کو جب دی گئی تھی جب آنسٹائن کے نظریوں کے صحیح یا غلط ہونے پر بحث چھڑی تھی۔ یہ بحث بھی کئی دن چلی، اور آخر میں معلوم ہوا کے تجربہ کرنے والے کی اپنی غلطی تھی جس وجہ سے نتیجہ غلط نکلا، نہ کہ آنستائنکا فرمولا غلط ہو۔

مگر دوسری طرف ان خبروں کو پاکستان میں زیادہ اہمیت نہیں دی گئی۔ ظاہر ہے، پاکستانیوں کے لیے پیٹر ہگس اور آنسٹائن معمولی لوگ ہیں۔ بچارے ٹائم ضائع کرتے ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ایک اسمارٹ فون خریدتے اور زندگی کا لطف اٹھاتے۔ یا فیس بک جوائن کرلیتے۔ فیس بک پر برقے کی اہمیت، اسلام کی سربُلندی، اور عورت کی شریعی احیاء کے دستوروں پر ہی کچھ شئیر کرکے ثواب کما لیتے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ایس-ایم-ایس کا نائٹ پیکج آن کرکے رمضان شروع ہونے سے بیس دن پہلے سے 'رمضان ایڈوانس مبارک' کے پیغمات بھیجتے، یہ کوئی حدیث شئیر کرتے یہ کسی بڑے بزرگ کا کوئی قول۔ بلکہ یہ تو بہت ذہین لوگ ہیں، ان کو تو شاید ۲۰۱۴،۲۰۱۵، اور قیامت تک آنے والے تمام رمضانوں کی ایڈوانس مبارکباد بھیجنی چائیے تھی۔ اور اگر نقاب پر انتا زور دیتے جتنا فیس بک پر نظر آتا ہے، تو فزکس کی قسم! تمام عورتیں، باوسیلہ فیس بک نقاب پوش ہوجاتیں۔ اب دیکھو فرانس میں ۲،۰۰۰ نقاب پوش عورتوں کے لیے شور مچتا ہے، لیکن جن ہزاروں عورتوں پر پاکستان میں ظلم ہوتا ہے، اس پر کوئی بات نہیں ہوتی۔

پیڑ ہگس، تم نے تو اتنی تحقیق کرکے بس اتنی سی بات معلوم کی ہے۔ یار! فیس بک استعمال کرو۔ ہر چیز کے لیے مذہنی تاویل تم کو مل جائے گی، چائے بیگ بانگ ہو، انسان کا پیدا ہونا ہو، گرانڈ یونیفکیشن(Grand Unification) کا نظریہ ہو، بگ کرانچ(Big Crunch) کی بات ہو، غرض کے کوئی بھی سائنسی نظریہ ہو، فیس بک پر ہر بات کی کوئی اسلامی تاویل مل جائے گی۔ بھاڑ میں جائے یہ نوبل پرائز، بھاڑ میں جائے طبعیات، بھائی فیس بک پر آو اور ہم سے سیکھو!

چلو آنسٹائن کے زمانے میں نیٹ ایجاد نہیں ہوا تھا ، پر پیٹر ہگس! تم ۸۳ سال کے ہوگئے ہو تم کو یہ بات سمجھ کیوں نہیں آئے؟ ابھی تو بہت بڑے بڑے کام باقی ہیں، تم کن دو دو روپے کی چیزوں میں وقت ضائع کررہے ہو۔ مجھے تو برہمن نسل پاکستانیوں نے بتایا ہے کہ جس کام میں پیسہ نہ ہو وہ بکار ہے۔ اب پیڑ تم یہ ذرے کس دکان پر بیچو گے، میں تم نہیں خرید رہا!!! ہاہاہاہا

اور یہ ایٹم کیا ہوتا ہے؟ اصل چیز تو ایٹم بم ہے، میرے پاس تو بہت سارے ہیں، تمھارے پاس کتنے ہیں؟ تم بس ان ذروں کے چکر میں پڑے رہو! ہم پاکستانیوں سے ہی کچھ سیکھ لو۔ کیا تمھاری تحقیق سے کوئی نیا اسلحہ بن سکتا ہے؟ کیا ہم ہگس ذرے سے زیادہ لوگوں کو مار سکتے ہیں؟ کیا افواج کو اس کا فائدہ ہے؟ اگر ان سب سوالوں کا جواب نفی میں ہے ، تو مجھے مسڑ بہت افسوس ہے کہ تمھاری تحقیق میرے کسی کام کی نہیں۔

یار آنسٹائن ہم تو ہٹلر کے برابر کے لوگوں ہیں۔ ہماری یہاں بھی روز قتل ہوتا ہے، روز معصوم لوگ مرتے ہیں۔ پرسوں ہی ہم نے ایک آدمی کو زندہ جلادیا، کل ہم نے تربت سے ایران جانے والی گاڑی پر حملہ کردیا، آج ہم نے کراچی میں تین لوگوں کو مار دیا۔ چلو ہٹلر سے مقابلہ نہ صحیح، لیکن ہٹلرِ ثانی تو ہم بھی ہیں نا۔ اب تم ڈرو مت، ہم نے کل روس کو مار بھگایا، آج آمریکہ ہار رہا ہے۔

تو مسڑ ہگس، آپ پاکستان کب آرہے ہیں؟

Thursday, March 8, 2012

سازشی مکالمہ


دو دوست آپس میں پاکستان کے مستقبل پر بات کررہے ہیں۔ اچانک سے ایک مکالمہ شروع ہوتا ہے:

پہلا دوست: یار! پاکستان کا کیا بنے گا؟
دوسرا دوست: (انتہائی یقین کے ساتھ) پاکستان جلد ایک عالمی طاقت بنے کو ہے! 

پہلا: لیکن چند لوگوں کا کہنا ہے کہ پاکستان ٹوٹ جائے گا؟
دوسرا: (انتہائی غصہ میں) معاذ اللہ!!! لا حول ولا!! توبہ کر! پاکستان قیامت تک کے لیے بنا ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت اس کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتی۔


پہلا: (تذبذب کا شکار) لیکن یار! مشرقی پاکستان بھی تو  بنگلادیش بن گیا۔ وہ قیامت تک کیوں نہیں رہا؟
دوسرا: ( چہرے پر ایک مسکان آجاتی ہے) دیکھ بیٹا! وہ بھارت و ہندو استعمار کی سازش تھی۔ بنگلادیش ہم سے الگ نہیں ہوا، بلکہ اب دو برادر مسلم ریاستیں وجود میں آگئی ہیں۔ ہم مل کر ہندو سامراج کو شکست دیں گے۔

پہلا: (کچھ سوچتے ہوئے) مگر آج تو بلوچستان سے بھی آزادی کے نعرے بلند ہورہے ہیں؟
دوسرا: نان سینس!! یہ سب بھارت کی سازش ہے۔

پہلا: لیکن بلوچستان کی تو سرحد انڈیا سے نہیں ملتی؟ پھر انڈیا کیسے مدد کررہا ہے؟
دوسرا: (انتہائی غصہ اور پھر انتہائی سکون) دیکھو! افغانستان میں اسرائیل اور امریکہ کا گٹھ جوڑ بن گیا ہے۔ وہ بھارت کو رستہ فراہم کررہے ہیں۔ معاملے کو سمجھو! ایک بہت بڑی سازش ہورہی ہے!!!

پہلا: کیا بھارتی فوج، کنٹینروں میں آرہی ہے یا ہمارے افغان بھائی ان کی مدد کررہے ہیں؟ کیا بلوچستان میں مکمل امن ہے؟
دوسرا: ( بس میں ہوتا لاوڈ اسپیکر پر اعلان کرتا)، سب جھوٹ!! افغانوں سے ہمارا تین ہزار سال کا رشتہ ہے! مجھے تو محمد غوری اور محمود غزنوی کے گھوڑوں کی ٹاپیں آج بھی سنائی دیتی ہیں، ہندوں کو آج بھی ۱۰۲۵ء کا واقعہ یاد ہے جب سومنات پر ہم نے حملہ کیا تھا! ہم اسلام کا قلعہ ہیں، کوئی طاقت ہم کو نہیں توڑ سکتی!

پہلا: کیا اس بار ہم کو ایٹم بم۔۔۔۔
دوسرا: (بات کاٹتے ہوئے) ایٹم بم کے خلاف امریکہ اور یورپ سازش کررہے ہیں، لیکن وہ محفوظ ہاتھوں میں ہے۔

پہلا: لیکن ہم تو ڈینگی نہیں روک سکے۔
دوسرا: دیکھو بات سمجھو! ڈینگی سی-آئی-اے کی سازش تھی۔ پاکستانیوں کو نیست و نابود کرنے کے لیے۔ یہ ایک سائنسی تجربہ تھا!

پہلا: اور جالی دوائیں؟
دوسرا: یہ عالمی سرمایہ داری نظام کی سازش ہے پاکستان کے خلاف۔

پہلا: اور جو سیلاب سے تباہی آئی تھی؟
دوسرا: (تھوڑی خاموشی کے بعد، آہستہ سے) سیلاب کی وجہ امریکہ کی ہارپ ٹیکنالوجی تھی، وہ قدرتی نہیں تھا۔ اس ہی طرح مظفرآباد میں زلزلہ بھی قدرتی نہیں تھا، اس کی وجہ بھی ساَئنسی تجربات تھے۔

پہلا:(بات بدلتے ہوئے) لیکن اب تو چین بھی ہم پر دہشت گردی کا الزام لگاتا ہے؟ سنکیانگ کے صوبے میں علیحدگی پسند تحریک کے حوالے سے۔
دوسرا: سب جھوٹ ہے! یہ امریکہ کی ایک اور سازش ہے۔ 

پہلا: اور کشمیری بھی پاکستان سے الحاق کے بجائے، مکمل آزادی کا خواہشمند ہیں۔
دوسرا: نان سینس!! کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ یہ سب عالمی میڈیا کا پروپگنڈہ ہے۔ میڈیا اسرائیل اور امریکہ کے ایجنڈے پر کام کرتا ہے۔ کشمیر ہمارا ہے اور رہے گا!

پہلا: لیکن کیا مشرقی پاکستان ہماری شہ رگ نہیں تھا؟
دوسرا: ( گھڑی کی طرف دیکھتا ہے) میرے مرشد کا پروگرام آنے والا ہے، مجھے جانا ہے۔

پہلا: مرشد کون؟
دوسرا: وہی جن کی میزبان ایک لڑکی ہوتی ہے اور وہ ہم کو کائنات کے سب سے بڑے فلسفی، جو دوبارہ کبھی پیدا نہیں ہوا اور نہ ہوسکتا ہے - علامہ اقبال - کا سبق دیتے ہیں۔ پاکستان کے خلاف پوری دنیا سازش کررہی ہے، تمھیں اس کا علم نہیں۔ آو! تم بھی ان سے فیض لو!!!

پہلا:  لیکن ابھی تو تم کہا رہے تھے کہ میڈیا اسرائیل اور امریکہ کے ایجنڈے پر کام کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔