Sunday, October 21, 2012

فنکار ڈاکٹر

فنکار. ذرائع: jalopnik.com

نہ باپ کو احساس ہوا کہ آدمی ڈاکٹر نہیں ہے، نہ بچے کو، اور شاید اب ڈاکٹر صاحب خود بھی بھول گئے ہوں گے کہ وہ ڈاکٹر نہیں ہیں۔

"ڈاکٹر صاحب! میری سیدھی آنکھ میں کئی دنوں سے درد ہورہا ہے، معلوم نہیں کیوں"، میرے برابر بیٹھے آٹھوئیں جماعت کے لڑکے نے ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں داخل ہوتے ہی بولا۔



مجھے ڈاکٹر صاحب کے کمرے کا حال معلوم نہیں کیونکہ دروازے کے دوسری طرف کا منطر میری نظر میں نہیں آرہا تھا۔ مگر کیونکہ دکان بہت چھوٹی سی تھی، اس لیے آواز صاف صاف سنائی دے رہی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کی آواز زید حامد کی دوسری کاپی تھی، پر ہنسی مِیرا جیسی تھی، بہت ہی باریک سی۔



"بیٹا آپ کا نام کیا ہے"، ڈاکٹر صاحب نے دھیمی آواز میں دریافت کیا۔

"حزیفہ"، بچے نے جواب دیا

"ماشاء اللہ! بہت خوبصورت نام ہے"، ماشاءاللہ بلکل اس طرح بولا جیسے عامر لیاقت کی زبان سے آپ نے سنا ہوگا۔
"حزیفہ بیٹا، آپ اپنی ٹھوڑی مشین پر رکھ دیں، اور جس طرح میں کہوں ، ویسے ویسے آپ کو کرنا ہے، بسم اللہ۔۔۔۔"
"ٹھوڑی؟؟"
"یعنی chin", ڈاکٹر نے جواب دیا۔




میں دکان پر اپنی عینک کا لینس خریدنے کئلیے گیا تھا، پر مجھے ڈاکٹر صاحب کی آواز ایسی لگ رہی تھی جیسے میں نے پہلے کہی سنی ہو، یہ دکان میرے محلے میں ہی ہے، اس لیے مجھے اور شک ہوا کہ یہ کوئی جانی پہچانی آواز ہے، پر یہ آواز کس کی تھی، اس کی تصویر ابھی بھی ذہن میں نہیں آرہی تھی۔ میں بھی ڈاکٹر صاحب کا انتطار کرنے کے بہانے مختلف قسم کے فریم دیکھتا رہا۔

"حزیفہ بیٹا، آپ کی دائیں آنکھ کا نمبر ۲ ہے، جب کہ بائیں آنکھ کا کچھ کم ہے"، ڈاکٹر نے کہا۔ مجھے آواز کچھ بناوٹی سی محسوس ہوئی، جیسے آدمی زبردستی اپنا لہجہ بدلنے کی کوشش کررہا ہو، جیسے ہمارے یہاں عام طور پر لوگوں کا مزاج ہے کہ مصنوعی طریقوں سے جلدی بڑا آدمی بن جائیں، یہی چیز مجھے اس لہجے میں سنائی دے رہی تھی۔




اس ہی جملے پر گفتگو ختم ہوئی اور ڈاکٹر صاحب اپنے حجرے سے باہر نکلے۔ میں حیران رہ گیا!!



وہ سفید ڈنٹونک والے دانت، وہ ہی کالی ٹوپی، وہ ہی سفید بھارتی کڑائی والی کمیز، وہ ہی بغیر فریم کا چشمہ لگائے ایک معصوم سا مجسمہ اپنے حجرے سے نکلا۔ آج سے کوئی دو سال پہلے یہ صاحب جو اپنے آپ کو "ڈاکٹر صاحب، ڈاکٹر صاحب" کہلوا رہے تھے، اس ہی دکان پر عینک فروخت کرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب اس دکان پر کوئی اور ہوا کرتے تھے، ان کے پاس واقعی تین چار ڈگریاں تھی اور ان کے پاس یہ حق بھی تھا کہ وہ اپنے آپ کو ڈاکٹر کہلوائیں۔



مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ اتنی جلدی یہ صاحب بھی ڈاکٹر بن گئے، ویسے بھی ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے، اصلی ہو کہ نکلی۔



"حریفہ، آپ کو کون سا فریم چائیے؟"، ڈاکٹر نے دریافت کیا
"رے بن"
"ہی ہی ہی، انکل، یہ صحیح معنوں میں آپ کے پیسے مُکانا چارہا ہے"، ڈاکٹر نے حزیفہ کے والد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔




نہ باپ کو احساس ہوا کہ آدمی ڈاکٹر نہیں ہے، نہ بچے کو، اور شاید اب ڈاکٹر صاحب خود بھی بھول گئے ہوں گے کہ وہ ڈاکٹر نہیں ہیں۔ اب تو وہ فر فر مشکل داوں کے نام بھی لے رہے تھے۔



مجھے نہیں معلوم کہ ان صاحب نے میری شکل پہنچانی یا نہیں، کیونکہ دو سال پہلے، وہ مجھے عینک بیچنے میں بری طرح فیل ہوگئے تھے۔ مجھے ان کی شکل صرف اس لیے یاد رہی کیونکہ ان کی آواز زید حامد جیسی تھی۔



میں نے اپنی عینک لی اور دکان سے باہر نکل آیا۔ 



میں نے نتیجا یہ نکالا کہ فنکاروں کو کسی ڈگری کی ضرورت نہیں ہوتی، وہ اس ملک میں ہر طرح کامیاب ہیں۔

No comments:

Post a Comment