Showing posts with label short story. Show all posts
Showing posts with label short story. Show all posts

Wednesday, July 25, 2012

دو روپے کا سکہ



میں دو روپیے کے سکے کو مسلسل ہوا میں گھما رہا تھا۔ سکہ جب اوپر جاتا تو سورج کی روشنی اس سے ٹکراتی تو سکہ ہوا میں جھلملاتا۔ یہ سارا عمل آنکھوں کو بہت اچھا لگتا اور میں بار بار سکے کو ہوا میں اچھالتا رہتا۔ کبھی سکہ میری ہتھیلی پر گرتا، کبھی میری قمیض پر، اور کبھی میرے بالوں کو چھوتا ہوا زمین پر گر جاتا۔ کبھی میں سکے کو بائیں ہاتھ سے دائیں ہاتھ میں دیتا اور کبھی دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو۔ کبھی میں سکے کو دونوں ہتھیلیوں کے درمیان پھنسا کر خوب ہلاتا۔ سکے کی ہلچل سے ایک باریک سی آواز پیدا ہوتی جو کانوں جو بہت لبھاتی۔ 

دور بیٹھا ایک لڑکا اس سارے عمل کو دلچسپی کے ساتھ دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں سکے کے اشارے پر چل رہی تھیں۔ اگر سکہ اوپر جاتا تو اس کی آنکھیں بھی اوپر جاتیں اور جب وہ نیچے آتا تو اس کی آنکھیں بھی نیچے آتیں۔ شاید اس کو بھی یہ سارا عمل بہت دلچسپ لکھ رہا تھا۔ وہ اپنی آنکھیں دیر دیر میں جھپکتا۔

کچھ دیر بعد، اس لڑکے نے بولا،" بھائی مجھے بھوک لگ رہی ہے۔ یہ دو روپے مجھے دے دیں، میں دو دو روپے جمع کرکے روٹی خرید لوں گا۔ آپ کو دعائیں بھی دوں گا۔"

"بیٹا دو روپے کیوں، میں تم کو آج رات کا کھانا دلوا دیتا ہوں"، میں نے اس معصوم بچے سے کہا۔

اس کی شکل پر ایک مسکان آگئی اور میرا بہت شکریہ ادا کیا۔

"میں تو سوچ رہے تھا آپ اس سکے سے کھیلتے رہیں گے۔" اس نے حیرانی سے کہا۔

"نہیں میرے دوست، میں فارغ تھا اس لیے سکے سے کھیل رہا تھا۔"

"آپ واقعی میں امیر آدمی معلوم ہوتے ہیں، آپ فارغ اوقات میں سکوں سے کھیلتے ہیں؟ میں تو ایک ایک سکے کی بہت حفاظت کرتا ہوں۔ میرے لیے تو ہر پیسہ اہم ہے۔"

معلوم نہیں اس نے یہ جملے کیوں بولے، شاید میں اس کہ کیفیت صحیح طرح سے نہیں جان پایا۔

بھوک بھی کیا دلچسپ کیفیت ہے، آدمی اس کیفیت میں کیا کچھ کرنے کو تیار ہو جاتا ہے، لیکن چند انقلابیوں کے مطابق بھوک کوئی اہم چیز نہیں، ان کے مطابق کوئی شخص انقلاب روٹی اور تربوز کھانے کے لیے تو نہیں لاتا، اس کے پیچھے کوئی بہت بڑا فلسفہ کارفرما ہوتا ہے، پر میرے خیال میں ان انقلابیوں کو کبھی بھوک کا احساس ہی نہیں ہوا، یا اگر ہوا ہو تو اب تک یہ حضرات اس احساس کو بھول گئے ہیں۔ لیکن جو بھی بات ہو، اس بچے کی آنکھوں میں مجھے بھوک نظر آرہی تھی۔ اگر وہ انقلابی زندہ ہوتے تو ان کو بھی یہ بھوک ضرور نظر آتی۔

اس وقت مجھے انسان کی بھوک کا احساس ہوا۔

Tuesday, July 10, 2012

An Unusual King

The king was ornate with gold and silver. He looked ludicrous with all this metal on his body. Standing on the precipice, he was about to commit suicide. Neither his capacious palace came to his help nor did his sanctimonious orders have the might to bear the tumult of the impoverished people. He did try to ameliorate the standard of living of the commoners, but to no avail.

The people considered him impious, as he had desecrated the holy temples in the region. The nation was highly orthodox, and wasn’t ready to exonerate the king for this act. It had ossified it’s believe about him, and suggested to truncate his head. Many people were lukewarm about this idea. The people's leader precluded this idea and the people capitulated to his command.

The king was a lummox with a big tummy. He ate luscious mangos while his despondent nation slept hungry. The hunger had turned them into a sanguinary beast, who wanted the ousted king to be like his predecessor. This indifference was inadvertent from the king; he was a tyro in administrating people. He had appointed honourable chiefs from amongst the nation to take care of the people. Few of them were expatriates, but in general, they were amiable locals. The chiefs used to practice exorcism. They mostly answered impromptu to the public that was suffering from turpitude of necessities. The king had sanctioned grants for the well being of the nation, but mostly it got into the hands of these corrupt chiefs. The precocious chiefs knew how to handle the nation, but the King failed to comprehend this.

The chiefs would recite some incantation to drive the people fool. They would castigate the evil demons, lynched people by declaring them blasphemers, incarcerate thieves and wrong-doers, and sometimes deter punishment for the poor to show their power. This culture of 'discipline and punishment' was ubiquitous. This drama made an illusion of expedite justice. It acted as a Catharsis in an overwrought society where unalloyed misery sardonically grappled their daily lives. Preeminent nobles played with the commoner’s faith through religio-political machination.

Such caustic cacophony had made the people amorphous. They had lost self-confidence, and were forced to visit these chiefs even for petty reasons. They used to extol them, begged them for analgesics, incessantly worshipped such prescient Savants, and magnanimously gave charity to these demigods. This practice was analogous to the Egyptian cults where only the mighty had the prerogative of being praised. Analogous to the Egyptians, the poor was born to die.

Meanwhile, the King scaled to the top in a cavalcade. There, he gave a poignant speech:

"O my nation! I was always a scapegoat, and now I'm going to die. I always had this presentiment. Today, I want to give a small message to you all: I can't underscore the importance of justice for a nation. It is the only palliative to anarchy. It is the only palliative to stop devoured and magnates from committing excess. Extradite all evil-doers! Don't incline towards your chiefs! And foster amity between yourselves!"

With this the King plummeted from the cliff.

Monday, June 4, 2012

قصہ چار مبینہ افیمچیوں کا

پورانا واقعہ ہے کہ چار افیمچی ایک صحرا سے گزر رہے تھے۔ دھوپ کڑاکے کی تھی، تپش سے سامنے کا منظر بےانتہا دھندلا ہوگیا تھا۔ اتنے میں انھیں دور ایک مسجد نظر آئی۔

"یار آیاز بابا، وہ دیکھو، وہ دیکھو، بچاری مسجد، کتنی دھوپ میں کھڑی ہے۔ مجھے افسوس ہورہا ہے"، روتی ہوئی آواز میں زید نے بولا۔ زید عمر میں سب سے بڑا تھا اور نشے کا استعمال بھی سب سے زیادہ کرتا تھا۔ ایک شاعر کا نام بار بار لیتا اور اشعار اس طرح پڑھتا، مانند سکند اعظم کی فوج کا سپاہ سالار ہو۔

"ہاں چچا زید،تو صحیح کہا رہا ہے، چل یار کچھ کرتے ہیں"، عمران نے زید سے کہا۔ عمران سے سارے دوست ڈرتے تھے۔ اس کے ہاتھ میں ہروقت بلا رہتا تھا، اور اگر اس کی سٹی گم جائے تو وہ بلا کسی کو بھی مار دیتا تھا۔ لیکن صحرا کی دھوپ نے اس کو نڈھال کردیا تھا۔ اب وہ بلے کو سر پر رکھتا، جو سائے کا کام کرتا تھا۔

چوتھے افیمچی کو سب نوری بابا کہتے تھے۔ معلوم نہیں کیوں، شکل سے انتہائی شاطر طبعیت کا مالک تھا اور کم گو بھی۔ پہلی نظر میں افیمچی ہونے کا گمان بھی محال تھا۔ لمبا قد اور صاف چہرہ مانو ابھی کشمیر کی کسی وادی سے آیا ہو۔ چہرے پر گرمی اور تپش کے کوئی اثرات نظر نہیں آتے تھے۔

چاروں افیمچیوں نے اپنا رُخ مسجد کی طرف کیا اور اس طرف چل پڑے۔ مسجد کے پاس پہنچے تو سب اس خیال میں پڑگئے کہ اب اس مسجد کو دھوپ سے کیسے بچائیں۔ آپس میں پارلیمانی مشاورت شروع ہوئی، پھر گالی گلوچ، اس کے بعد بات ہاتھا پائی تک جاپہنچی۔

"ہم سورج کو آخری وارننگ (warning) دے رہے ہیں، اس زمین سے ہٹ جاو، میں کہتا ہوں اس زمین سے ہٹ جا، ورنہ اپنے انجام کیلیے تیار رہ"، زید نے بے انتہا غصے سے سورج کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ اس کی ٹوپی بھی سر سے گرگئی۔
"آخری وارننگ ہے، ورنہ اپنے شاہینوں کو بھیجتا ہوں تیرے پاس"، ٹوپی اٹھاتے ہوئے، زید زور سے بولا۔

"ابے سورج ۹۰ منٹ میں ہٹ جا! صرف ۹۰ منٹ! میرے ایک بلے سے دو سورج آوٹ ہوجاتے ہیں۔ تُو تو صرف لیمو جتنا ہے۔ میرا بلا دیکھ اور اپنا قدر۔"، عمران نے بلا سورج کے برابر رکھتے ہوئے کہا۔

"تیرے بلے کا مقابلہ میرا شاہین کرے گا"، زید نے مسکین آیاز کی طرف آشارہ کرتے ہوئے کہا۔

"تیرا شاہین؟!، یہ تو میرا سونامی ہے"، عمران بلا ہلاتے ہوئے بولا۔

"دیکھو عمران، ہم آپ کو بھی وارننگ دے رہے ہیں، ان شاہینوں کو آیندہ سونامی مت کہنا، ہم تمھیں بھی نیست و نابود کردیں گے"، زید نے یہ جملہ ایک سانس ہی میں بولا۔

"یہ میرا سونامی ہے!!!!"، عمران نے بولتے ہوئے بلا زید کی طرف دے مارا، لیکن زید نے جلدی سے بائیں جانب چھلانگ مار لی۔ بلا لگا بھی تو مسکین آیاز کی دائیں ٹانگ پر جو پہلے سے خراب تھی۔

آیاز درد کی شدد سے چیخ پڑا۔ بچارا بہت معصوم تھا۔ تھوڑی سی افیم کے لیے عمران اور زید کی لڑائی میں چوٹ کھاتا۔ زید آیاز کو ایک جنگلی پرندے سے تشبیہ دیتا، جبکہ عمران آیار کو قاتل اور سمندری عذاب یعنی سونامی سے ملاتا۔ حقیقت یہ تھی کہ آیاز افیم کھا کھا کر اتنا کمزور ہوگیا تھا کہ وہ باآسانی فریب کھا جاتا۔ اور فریب کھانے کے سوا اس کے پاس تھا کیا؟ صرف افیم، اور افیم کے مالک بھی زید، عمران اور نوری بابا تھے۔ اس غریب کی کیا اوقات کہ خود افیم خرید کر چکھ سکے۔ بچارے آیاز پر بہت افسوس ہوتا تھا، افیم نہ ہونے کو وجہ سے خودسوزی بھی کرتا اور کبھی کبھی خودکُشی کی کوشش بھی، لیکن اس کی خودکُشی کی کوشش کو عمران اور زید کی افیم ناکام بنادیتی۔ فارسی کی مشہور کہاوت ہے، چہل سال عمرِ عزیزت گزشت، لیکن مزاجِ طفلی از حال طفلی نگشت' (یعنی کہ زندگی کہ چالیس سال تو گزر گئے لیکن وہ پرانی بچوں والی عادت نہیں گئی)۔ آیاز افیم کھانے کا عادی ہوچکا تھا، یہ عادت چہل ہزار سال میں بھی چلی جائے تو کمال ہوگا۔

بہرحال، زید و عمران آیاز کی طرف بھاگے اور اسے دلاسا دینے لگے۔ حسبِ معمول آیاز نے رونا ڈھونا بند کردیااور خوش ہوگیا۔ چلو جھوٹا دلاسا ہی صحیح!!

یہ سارا کھیل نوری بابا دور سے بیٹھا دیکھ رہا تھا۔ معلوم نہیں اس کو افیم کی عادت کس نے لگا دی، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ساروں کو افیم کی عادت اس ہی نے لگائی ہو۔ جب افیمچیوں کے جذبات کچھ ٹھنڈے ہوئے، تو پھر نوری بابا کھڑا ہوا۔

"بھائیوں، ہم یہاں مسجد سے دھوپ ہٹانے کے لیے آئے تھے، لیکن تم لوگ تو آپس میں ہی لڑپڑے"، یہ جلمہ نوری بابا کا تکیہ کلام تھا، کہا جاتا ہے کہ تین نسلوں سے یہ جملہ معمولی معمولی رّد و بدل کے ساتھ ایسے ہی ادا کیا جارہا ہے۔

"اب اس فقیر کی بھی سنو"، اُس نے سنجیدگی کے ساتھ کہا۔ "عمران صحیح کہتا ہے، یہ دھوپ ۹۰ منٹ میں ہٹ سکتی ہے۔ ابھی ایک بج رہا ہے، لیکن ڈھائی بجے تک یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے، ہمیں صرف اس مسجد کو دھکا دینا ہے، اور یہ مسجد سائے میں چلی جائے گی۔ وہ دیکھو! وہاں ایک درخت ہے"، نوری بابا نے درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔

"ہاں نوری! تیرا خیال بہت اچھا ہے۔ ہم سب مل کر اس مسجد کو دھکا لگاتے ہیں تاکہ یہ مسجد درخت کے نیچے آجائے"، عمران نے زید کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔

"صحیح ہے بھائیوں، میں درخت کے پاس جاتا ہوں، اور جیسے جیسے مسجد درخت کے قریب آتی رہے گی، میں تم کو بتاتا رہوں گا"، یہ کہتے ہوئے نوری بابا درخت کے سائے میں جابیٹھا، جبکہ عمران، زید اور آیاز نے دھکا دینا شروع کردیا۔

"زور لگا کر عالٰی شاہ، زور لگا کر عالٰی شاہ، زور لگا کر عالٰی شاہ"، نوری بابا نعرے لگانے لگا۔

جیسے جیسے سورج نیچے ہوتا گیا، درخت کا سایہ لمبا ہوتا چلا گیا، مانو جیسے مسجد دھکے کی وجہ سے سائے میں جارہی ہو۔ ایک گھنٹا گزرا، پھر دو گھنٹے، پھر جب چار بجے تو آیاز بول پڑا، "یہ مسجد سائے میں کب آئے گی؟"

اس پر زید نے جواباً کہا، "احمق! تو میرا شاہین ہے، تیرے سامنے جہاں اور بھی ہیں۔ صرف دو تین گھنٹے دھکا لگانے میں تیری جان نکل گئی؟"۔ پھر فرمایا، "میں نوری کے پاس جارہا ہوں، اس کا حال معلوم کرنے، ابھی واپس آتا ہوں۔" یہ کہتے ہوئے وہ چل نکلا۔

ابھی آدھا گھنٹا بھی نہ گزرا ہوگا کہ عمران بول پڑا، "میں زید کو دیکھ کر آتا ہوں، دروغ گو ہے!" اس پر آیاز نے بولا، "عمران کچھ پانی لیتے آنا، میرا پانی ختم ہوگیا ہے۔" عمران نے گھورتے ہوئے دیکھا اور بولا، "پانی ختم ہو گیا ہے؟ احمق، تم تو سونامی ہو، تم تو خود ہی پانی ہو، پانی پانی کرگئی مجھ کو تیری یہ بات۔"، یہ جملہ کہتا ہوا عمران بھی نوری بابا کے پاس چلا گیا۔

اب شاید چھ بج چکے تھے اور اندھیرا ہونے کو تھا۔ مسجد خود بخود سائے میں آگئی تھی۔ آیاز کی حالت ایسی ہوگئی تھی، جیسے وہ چند لمحوں میں مر جائے گا، لیکن پھر نوری بابا نے آیاز کو کچھ پانی دے دیا اور اسکی جان میں جان آئی۔ اس کامیابی پر عمران اور زید ایسے خوش ہورہے تھے جیسے یہ ان ہی کی کاوش کا نتیجہ ہو، حالا کہ وہ تو دوگھنٹے بعد ہی بھاگ نکلے تھے۔ منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔

"شاباش میرے شاہین"، "شاباش میرے سونامی"، کے نعرے آیاز کو عطا کئے جارہے تھے۔ نوری بابا، حسبِ معمول پھر تماشہ دیکھنے لگا، اور قریب موجود نخلستان میں چلا گیا۔ جب آیاز دھکا دے رہا تھا، تو زید اور عمران اس ہی نخلستان میں آرام کررہے تھے۔ معلوم نہیں دماغ میں نوری کیا سوچ رہا ہو۔ شاید وہ یہ سوچ رہا ہو کہ تاریک زمین پر تاریکی سے بننے والے سائے اور حقیقی سائے میں کیا فرق ہوتا ہے۔ جب کوئی چیز تاریکی کی وجہ سے اندھیرے میں چلی جائے پھر وہ روشنی فراہم نہیں کرسکتی۔ اندھیری زمین پر ہر چیز اندھیری ہوتی ہے، تاریکی میں روشنی کُجا حکمت کُجا!

لیکن کیا نوری یہ سب کچھ سوچ سکتا ہے؟ وہ تو افیمچی ہے؟ کیا واقعی وہ افیم چہ ہے؟! میرے خیال میں واحد افیمچی آیاز ہے، باقی صرف افیمچی ہونے کا بہانہ کررہے ہیں۔۔۔



حواشی
>نوری بابا کا استعارہ جنرل ضیاء اور تمام عوامی حکومتوں پر قبضہ کرنے والے جنرلوں کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔
>آیاز پاکستان کے عوام ہے۔
>مسجد کا استعارہ کوہستان کے اس فتویٰ کے لیے ہے۔