Wednesday, October 17, 2012

پاکستان کی جدید الف بے

ان جدید حروف تہجی میں "ث"، "ڑ"، اور "ژ" سے کوئی لفظ شروع نہیں ہوتا۔ امید ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ لوگ نئے الفاظ بھی ایجاد کرلیں گے، جس طرح یہ الٹے سیدھے دلائل دریافت کرلیتے ہیں۔

ملالہ کے واقعے سے ایک بات کا پتہ ضرور چلا کہ ابھی بھی اعتدال پسند آواز زندہ ہے۔ ابھی بھی یہ آواز اپنی بات منوانے کی کوشش کررہی ہے، ابھی بھی یہ آواز دریا بہ دریا، کوہ بہ کوہ امن کا پیغام آگے بڑھا رہی ہے۔ یہی وہ آواز ہے جو اس ملک میں تبدیلی لائے گی اور ترقی کی ذامن بنے گی۔

لیکن جیسے کہ میں نے پچھلے بلاگ میں لکھا تھا، ذہنی مریضوں کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جن کو اس انسانیت سوز واقعے میں بھی سازش کی 'خوشبو' آرہی۔ ان کی عجیب و غریب دلائل کے بارے میں میں پچھلی بار لکھ چکا ہوں۔ نقل دلیل دلیل نباشد۔


آج میں ایک فرضی اردو حروفِ تہجی کی کتاب کا خاکہ پیش کررہا ہوں۔ یہ فرضی کتاب ذہنی مریضوں کیلئے ہے۔ اس کتاب کے کئی الفاظ آپ روز ٹی-وی، اخبار، اس-ایم-اس، انٹرنیٹ، وغیرہ پر پڑھ چکے ہیں۔ یہ الفاظ بہت تیزی کے ساتھ اعتدال پسند سماج کا حصہ بن رہے ہیں، اس لیے اب وقت آکیا ہے کہ ان کو ایک جگہ اکھٹا کیا جائے۔



مریضوں کی اردو


ان جدید حروف تہجی میں "ث"، "ڑ"، اور "ژ" سے کوئی لفظ شروع نہیں ہوتا۔ یہ بلکل ویسی ہی بات ہے جیسے کہ عربی میں "پ" نہیں ہوتا اور فارسی میں "ڈ" نہیں ہوتا۔ امید ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ لوگ نئے الفاظ بھی ایجاد کرلیں گے، جس طرح یہ الٹے سیدھے دلائل دریافت کرلیتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment