Sunday, August 19, 2012

زبردستی کی عیدیں

چاند کا ایک حسین منظر۔ ذرائع:  home.hiwaay.net 


کل رات ٹی-وی پر چاند کی خبر سن کر بڑا عجیب سا لگا۔ خیر چاند تو نہ نکلا پر میری ہنسی ضرور نکل گئی۔ پاکستان بھر کا میڈیا رویت ہلال کمیٹی کے دفتر پر پہنچا ہوا تھا۔ بیس درجن سے زائد کیمرا پرسن ، دس درجن سے رپورٹرز، اور ایک درجن سے زائد ٹی-وی چینلز۔ لگ تو ایسا رہا تھا جیسے کائنات کا کوئی نیا راز فاش ہونے کو ہے، پر ایسا کچھ نہ ہوا۔ ایک عدد چاند تھا، اور کچھ بھی نہیں۔ کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا، بلکہ چوہا بھی نہیں نکلا۔ 


بہر حال، مجھے اس پہاڑ اور چوہے کے کھیل سے زیادہ دلچسپی نہیں۔ میری دلچسپی تو اعلان کے بعد ہونے والی سماجی کیفیت سے ہے۔ میڈیا والے حضرات، مفتی منیب الرحمٰن کی جان چھوڑ کر عوام کے پاس پہنچ گئے۔ اور اس 'بریکنک نیوز' پر ان کا تجزیہ معلوم کرنے لگے۔ سوشل میڈیا پر بھی اس خبر کو بحث کا موضوع بنایا گیا۔ 

جتنی ٹرٹر پاکستان کے لوگوں نے 'چاند کے اہم مسئلے' پر کی، اگر اتنی ہی آواز چترال سے لے کر کراچی تک اور معصوم ہزارہ کے لوگوں کے قتل عام پر اٹھاتے تو شاید، عید کی 'رسم' کچھ اچھی بھی لگتی۔ یہ عید تو چودہ اگست جیسی ہے، وہ بھی بلا وجہ منایا جاتا ہے، یہ بھی بلا وجہ منائی جارہی ہے۔ 

اور اس چاند پر اتنا شور؟ کوئی صاحب فرما رہے ہیں کہ ماہر فلکیات کے سپرد کردو، کسی کا کہنا ہے کہ ایک نیا کلینڈر بنا دو، ایک اور جید رائے یہ ہے کہ عید پوری دنیا میں مکہ کہ حساب سے منانی چاہیے، جس طرح کرسمس پوری دنیا میں ایک دن بنتی ہے، عید بھی اس ہی طرح منانی چاہیے۔ 

مجھے محسوس ہوتا ہے کہ چاند پر مفتی منیب الرحمن سے زیادہ مسئلہ میڈیا کو ہے، جو زبردستی چھوٹے صوبوں پر ریاست کا جبر نافذ کرنے میں مدد دے رہا ہے۔ یہی ایک فسطائیت طرزحکومت ہے جو اقلیت کی آزادی کو قبول نہیں کرتا اور ان کا مزاق بناتا ہے۔ 

میرے خیال میں اگر چاند پنجاب میں دیکھا گیا ہوتا تو اتنا شور نہیں مچتا، لیکن کیونکہ یہ چاند 'غدار پٹھانوں' نے دیکھا ہے، اس لیے اس کا مزاق بنایا جارہا ہے۔ ان کو یہ بتایا جارہا کہ وہ چاند بھی نہیں دیکھ سکتے۔ چاند پر بھی ان کو پاکستان کا جبر قبول کرنا ہے۔ 

جن کو عید پنجاب کے ساتھ منانی ہے، وہ پنجاب کے ساتھ منائیں، پر اگر کوئی پنجاب کے ساتھ نہیں منانا چاہتا، تو پنجاب شاید پاکستان کا ٹھکے دار تو ہے، پر اسلام کا نہیں۔ 

مجھے جتنے پیغامات پڑھنے کو ملے اُن میں 'پٹھانوں' کا تمسخر بنایا گیا۔ سوال یہ کہ اگر ان کو چاند نظر آگیا ہے، تو ضروری ہے کہ ان پر ریاست (جس کا ۵۲٪ مالک پنجاب ہے) کی مرضی جبراً نافذ کی جائے؟ ان کو بھی اتنا ہی حق ہونا چاہیے، جتنا پاکستان کی دوسری قوموں کو ہے۔ ہر صوبے کو اپنی اپنی عید الگ منانی چاہیے، اگر ان کو چاند نظر آگیا ہے۔ ریاست کو حق نہیں کہ وہ جبر کے ذریعے اپنی مرضی کو نافذ کرے۔ 

میری طرف سے پشاور کے لوگوں کو دو بار مبارک باد۔ ایک تو رمضان کے اختتام کی اور دوسری، ریاستی جبر کے خلاف کھڑے ہونے کی۔

No comments:

Post a Comment