Saturday, December 17, 2011

سقوط ڈھاکہ پر کچھ خیالات

اگر کوئی صاحب دانا المیوں کی ایک فہرست ترتیب کرنے بیٹھے تو اول شمارے پر کون سا المیہ آئے گا؟ کیا وہ سقراط ۳۹۹ قبل از میلاد کی موت کو سب سے اوپر لکھے گا؟ کیا وہ ہینری ھستم کے طلاق کو اولیت دے گا؟ کیا وہ جنگ پانیپت میں ابراہیم لودھی کی شکست کو سر نوشت کرے گا؟ کیا وہ سکندر کی اچانک موت کو مقام نخست بخشے گا؟ کیا وہ ھمدان تا بغداد مغلوں کے حملوں کو سب سے بڑا المیہ قرار دے گا؟ کیا وہ ایک ماھیگیر اور نقش کار کا بعد از آں صدام حسین اور ہٹلر کے روپ ڈھالنے کو سب سے بڑا المیہ قرار دے گا؟


میں صاحب دانا تو نہیں مگر میرے خیال میں تاریخ کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم المیے کو المیہ کہنا ہی چھوڑ دیں۔ ہم المیہ کو کسی سازشی مفروضے، یہود و ھند کی چال یا پاکستان کی خدائی ریاست کے خلاف طاغوتی طاقتوں کا نام دیں دے۔ المیہ کو تاریخ کی مجبوری کہنا بھی اس کی اہمیت کو گھٹانے کے مترادف ہے۔ 


ہماری قریب کی تاریخ میں ایک ایسا ہی خون آشام واقعہ پیش آیا ہے۔ تقسیم کا المیہِ دوم۔ اور اس بار اس المیہ پر بات کرنا ہی جرم ٹھرا۔ بنگلادیش کمیشن کی رپورٹ بھارت میں بہت پہلے چپھی پر پاکستان میں اس کو شائع کرنے پر پابندی رہی۔ اگر کسی جاوید ہاشمی نے آواز بھی اٹھائی تو اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا۔ نصابی کتب میں اس واقعہ پر یکطرفہ اور سرسری نظر ڈالی گئی۔ اس واقعہ سے سبق سیکھنے کے بجائے فوجی اسٹبلشمنٹ نے کچھ اور ہی رنگ دیا۔ بقول بی بی سی کے عابد علی رضوی ادیبوں نے بھی وہ شور برپا نہیں کیا جس کی ضرورت تھی۔ مشرقی پاکستانیوں پر جو ظلم ہوا اس کی ایک طویل داستان ہے۔ گر کہ میرے لفظ تیرے درد کا مرہم نہ تھے، کم از کم اس کہانی کو زندہ رکھنا اور مسخ ہونے سے بچانا ہر پاکستانی کا فرض ہے۔


جالب تو یہ کہتے کہتے تھک گئے ، 'محبتیں گولیوں سے بو رہے ہو، وطن کا چہرا خون سے دھو رہے ہو'۔ لیکن یہ بات کسی کو سمجھ نہ آئی کہ گولیوں کے ذریعہ یہ کام ممکن نہ تھا۔ تکا خان، جو بعد میں بنگالیوں کے قصائی کہ شعار سے 'نوازے' گئے، کا مشہور جملہ ہے، "مجھے زمیں چاہیے، آدمی نہیں"۔ فوج یہی سمجھتی رہی کہ چند باغی ہیں جن کو طاقت سے کنٹرول کر لیا جائے گا۔ ویسے بھی ان بنگالیوں کی کیا اوقات کے پاک فوج سے لڑئیں!


اس قتلِ عام کو ٹائیمز مجلہ نے پولیند کے بعد سب سے بڑی نسل کشی قرار دیا۔ ویسے بھی افواج کی نفسیات دنیا کی تاریخ میں ایک جیسی ہی رہی ہے۔ بقول افتخار عارف، 'فرات کے ساحل پر ہوں یا کسی اور کنارے پر، سارے لشکر ایک طرح کے ہوتے ہیں، سارے خنجرایک طرح کے ہوتے ہیں'۔ یہ لشکر و جنجر کسی کام کہ اگر دشمن کہ بجائے مجھ پر ہی استعمال ہوں۔ یہاں پر اس کوہاٹی نوجوان، احمد فراز، کے اشعار بےساختہ لب پر آ جاتے ہیں، 'میری بستی سے پرے بھی میرے دشمن ہوں گے، پر یہاں کب کوئی اغیار کا لشکر اترا، آشنا ہاتھ ہی اکثر میری جانب لپکے، میرے سینے میں سدا اپنا ہی خنجر اترا'۔ یہ کشت و خوں کس کے ایما پر آ غازیوں! بجائے یہ کے افواج بنگالیوں کو ان کا جمھوری حق دلوانے میں ان کی مدد کرتی، بجائے یہ کہ وہ مغربی پاکستان کے شکست خوردہ لیڈر، جناب بھٹو، کا ساتھ دیتی، فوج کو چاہیے تھا کہ فاتح کا ساتھ دے۔ مگر انھوں نے الٹا مشرق کو ہی کچلنا چاہا۔


معروف موراخ ایل فشر نے کہا تھا کہ تاریخ ایک کے بعد دوسری اور پھر تیسری ایمرجنسی کا نام ہے۔ ملک بننا اک ایمرجنسی ، پھر ملک ٹوٹنا ایمرجنسی اور پھر ہتھیار گرانا بھی ایک ایمرجنسی! سر جھوکی فوج کو دیکھ کر رونا آیا! جنرل نیاز نے تو کہا تھا کے اگر بھارت نے حملہ کیا تو ہم کلکتہ تک پہنچ جائے گے۔ لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ کلکتہ تو دور کی بات، ڈھاکہ بھی ہم سے گیا۔ ۹۰،۰۰۰ فوجیوں نے ہتھیار گرا دیے اور یوں ملک دولخت ہوگیا۔ اس قیامت کی گھڑی کو میجر صدیق سالک نے اپنی کتاب 'میں نے ڈھاکہ ڈوبے دیکھا' میں باخوبی بیان کیا ہے اور اختیتام اس انٹرویو پر کیا جو انھوں نے جنرل نیاز کے ساتھ زمانِ اسیری میں کیا۔ جنرل صاحب نے ہتھیار گرانے کی وجہ یہ بتائی کے وہ ہزاروں بیواوں کی بددعا اپنے سر نہیں لینا چاہتا تھا، اس لیے انھوں نے ہتھیار گرانے کا حکم دیا! بقول فراز:
'تم نے جاں کہ اوز آبرو بیچ دی'
(جاری ہے)