Saturday, March 22, 2014

کچھ اور خیال۔۔۔



میں منٹو تو نہیں پر مجھے بھی جلدی ہے۔ اس لیے 'کا' 'کے' کی اغلاط کو خود صحیح کرلینا!!


کہا جاتا ہے کہ منٹو صاحب نے اپنے آخری افسانے صرف اس لیے لکھے تاکہ وہ کچھ بادہ و مے خرید سکیں۔ جب وہ لاہور میں مال روڈ پر اپنے افسانوں کی تصنیف کیلئے جاتے، تو اُس کو یہ ضرور کہتے کہ "بھئی! میں نے یہ افسانے بہت جلدی میں لکھے ہیں، اس لیے 'کا' 'کے' کی اغلاط کو خود صحیح کرلینا".

میں منٹو تو نہیں پر مجھے بھی جلدی ہے۔ اس لیے 'کا' 'کے' کی اغلاط کو خود صحیح کرلینا!!


تو بات شروع کہا سے ہو؟ سفر نامہ لکھنا تو دو وجوہات کی بنا پر بکار ہے، اول تو یہ کہ میرا ۸۰ فیصد سفر جامعہ سے کمرے اور کمرے سے جامعہ تک کا ہے۔ باقی بچا ۲۰ فیصد تو اس میں ۱۵ فیصد بستر سے بیت الخلاء اور بیت الخلاء سے باورچی خانہ اور پھر وہاں سے واپس بستر۔ باقی ۵ فیصد جرمنی کے کچھ شہروں کا سفر ہے۔ وہ پڑھنے والے ویکی پیڈیا پر خود پڑھ سکتے ہیں۔ دوسری وجہ نہ لکھنے کہ یہ ہے کہ سفر نامہ البیرونی سے لے کر مستنصر حسین تاڑر تک بہت لکھے جاچکے ہیں۔ ایک اخباری سفر نامہ تو اوریا مقبول صاحب نے بھی لکھا تھا جس میں انھوں نے یہ ثابت کرنے کہ کوشش کی تھی کہ جاپان میں جس طرح مساجد بن رہی ہیں اس سے اسلام اور "پاکستان" کا نام بہت روشن ہورہا ہے۔ خدا بہتر جانے۔۔۔۔


اب دوسرا موضوع ہے سیاست، اس پر کچھ اظہارِ خیال ضروری ہے۔ یہاں پر میں الیکشن کے زمانے میں آیا تھا۔ تین حیرت انگیر چیزیں دیکھنے کو ملیں:

۱) کوئی گولی نہیں چلی اور کوئی پیا جام نہیں ہوا۔ سننے میں یہ بھی آیا کہ ایک جرمن شہری ڈاک سے بھی ووٹ دے سکتا ہے۔
۲) سیاسی مجالس بلکل انگریزی گانوں کے کانسرت جیسی تھیں۔ لوگ صرف مزے کیلئے جاتے۔
۳) الیکشن ختم بھی ہوگیا اور جامعہ کی ایک چھٹی تک نہ ہوئی۔

ابھی کوئی اور بات کرنے کو نہیں ہے۔۔۔ تمام شود۔۔۔ ہاہاہا