پروفیسر پیٹر ہگس |
آج کل دنیا میں 'ہگس ذرہ' موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ ماہرینِ طبعیات کا کہنا ہے کہ یہ ذرہ کائنات کے چھپے رازوں کو سمجھنے میں مدد فراہم کرے گا، مثلاً یہ کے معادے میں وزن کہاں سے آتا ہے؟ اور چاند، ستارے، سیارے، کہکشائیں، کیسے آپس میں جڑی رہتی ہیں۔ یورپ کی خبروں سے ایسا معلوم ہوتا ہے شاید یہ بہت ہی بڑی پیش کوئی رفت ہو۔ آپ چاہیں ڈیوچے ویلا دیکھ لیں یا سی-این-این سن لیں، ہر چینل اس کو ایک بہت بڑے 'بریک تھرو' سے مماثلت دے رہا ہے۔ آخری بار اس قسم کی میڈیا کوریج سائنس کو جب دی گئی تھی جب آنسٹائن کے نظریوں کے صحیح یا غلط ہونے پر بحث چھڑی تھی۔ یہ بحث بھی کئی دن چلی، اور آخر میں معلوم ہوا کے تجربہ کرنے والے کی اپنی غلطی تھی جس وجہ سے نتیجہ غلط نکلا، نہ کہ آنستائنکا فرمولا غلط ہو۔
مگر دوسری طرف ان خبروں کو پاکستان میں زیادہ اہمیت نہیں دی گئی۔ ظاہر ہے، پاکستانیوں کے لیے پیٹر ہگس اور آنسٹائن معمولی لوگ ہیں۔ بچارے ٹائم ضائع کرتے ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ایک اسمارٹ فون خریدتے اور زندگی کا لطف اٹھاتے۔ یا فیس بک جوائن کرلیتے۔ فیس بک پر برقے کی اہمیت، اسلام کی سربُلندی، اور عورت کی شریعی احیاء کے دستوروں پر ہی کچھ شئیر کرکے ثواب کما لیتے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ایس-ایم-ایس کا نائٹ پیکج آن کرکے رمضان شروع ہونے سے بیس دن پہلے سے 'رمضان ایڈوانس مبارک' کے پیغمات بھیجتے، یہ کوئی حدیث شئیر کرتے یہ کسی بڑے بزرگ کا کوئی قول۔ بلکہ یہ تو بہت ذہین لوگ ہیں، ان کو تو شاید ۲۰۱۴،۲۰۱۵، اور قیامت تک آنے والے تمام رمضانوں کی ایڈوانس مبارکباد بھیجنی چائیے تھی۔ اور اگر نقاب پر انتا زور دیتے جتنا فیس بک پر نظر آتا ہے، تو فزکس کی قسم! تمام عورتیں، باوسیلہ فیس بک نقاب پوش ہوجاتیں۔ اب دیکھو فرانس میں ۲،۰۰۰ نقاب پوش عورتوں کے لیے شور مچتا ہے، لیکن جن ہزاروں عورتوں پر پاکستان میں ظلم ہوتا ہے، اس پر کوئی بات نہیں ہوتی۔
پیڑ ہگس، تم نے تو اتنی تحقیق کرکے بس اتنی سی بات معلوم کی ہے۔ یار! فیس بک استعمال کرو۔ ہر چیز کے لیے مذہنی تاویل تم کو مل جائے گی، چائے بیگ بانگ ہو، انسان کا پیدا ہونا ہو، گرانڈ یونیفکیشن(Grand Unification) کا نظریہ ہو، بگ کرانچ(Big Crunch) کی بات ہو، غرض کے کوئی بھی سائنسی نظریہ ہو، فیس بک پر ہر بات کی کوئی اسلامی تاویل مل جائے گی۔ بھاڑ میں جائے یہ نوبل پرائز، بھاڑ میں جائے طبعیات، بھائی فیس بک پر آو اور ہم سے سیکھو!
چلو آنسٹائن کے زمانے میں نیٹ ایجاد نہیں ہوا تھا ، پر پیٹر ہگس! تم ۸۳ سال کے ہوگئے ہو تم کو یہ بات سمجھ کیوں نہیں آئے؟ ابھی تو بہت بڑے بڑے کام باقی ہیں، تم کن دو دو روپے کی چیزوں میں وقت ضائع کررہے ہو۔ مجھے تو برہمن نسل پاکستانیوں نے بتایا ہے کہ جس کام میں پیسہ نہ ہو وہ بکار ہے۔ اب پیڑ تم یہ ذرے کس دکان پر بیچو گے، میں تم نہیں خرید رہا!!! ہاہاہاہا
اور یہ ایٹم کیا ہوتا ہے؟ اصل چیز تو ایٹم بم ہے، میرے پاس تو بہت سارے ہیں، تمھارے پاس کتنے ہیں؟ تم بس ان ذروں کے چکر میں پڑے رہو! ہم پاکستانیوں سے ہی کچھ سیکھ لو۔ کیا تمھاری تحقیق سے کوئی نیا اسلحہ بن سکتا ہے؟ کیا ہم ہگس ذرے سے زیادہ لوگوں کو مار سکتے ہیں؟ کیا افواج کو اس کا فائدہ ہے؟ اگر ان سب سوالوں کا جواب نفی میں ہے ، تو مجھے مسڑ بہت افسوس ہے کہ تمھاری تحقیق میرے کسی کام کی نہیں۔
یار آنسٹائن ہم تو ہٹلر کے برابر کے لوگوں ہیں۔ ہماری یہاں بھی روز قتل ہوتا ہے، روز معصوم لوگ مرتے ہیں۔ پرسوں ہی ہم نے ایک آدمی کو زندہ جلادیا، کل ہم نے تربت سے ایران جانے والی گاڑی پر حملہ کردیا، آج ہم نے کراچی میں تین لوگوں کو مار دیا۔ چلو ہٹلر سے مقابلہ نہ صحیح، لیکن ہٹلرِ ثانی تو ہم بھی ہیں نا۔ اب تم ڈرو مت، ہم نے کل روس کو مار بھگایا، آج آمریکہ ہار رہا ہے۔
تو مسڑ ہگس، آپ پاکستان کب آرہے ہیں؟
واہ واہ واہ کمیل جواب نہیں ہے۔۔۔ بہت خوب لکھا ہے خوش رہو۔۔۔۔
ReplyDeleteالگ ہی منفرد لہجہ ہے اس مضمون کا :)
شکریہ!
Delete