Sunday, October 7, 2012

کرکٹ اور میں

ایک کرکٹ میچ کا منظر۔ ذرائع: davidsanger.com


کھیل عام طور پر قومی پرستی کے جذبات پیدا کرتا ہے۔ ان جذبات سے فرد کا قوم کے ساتھ چند لمحوں کا رشتہ قائم ہوجاتا ہے، اور وہ اس رشتے کی وجہ سے اپنے اوپر ہونے والی تکلیف کو بھی بھول جاتا ہے۔



عجیب اتفاق کی بات ہے کہ میں نے ایک بھی کرکٹ میچ نہیں دیکھا، پر میری کرکٹ پر معلومات اتنی ہی تھی جتنی اسکی جس نے سارے میچز مکمل انہماک کے ساتھ دیکھے تھے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ پاکستانی اخباروں میں شہ سرخی پر ان کرکٹ میچز کی خبر ہوتی تھی۔ اگرچہ ملک میں فرقہ وارنہ فسادات روز کا معمول ہیں، ہندو ملک چھوڑ کر بھارت جارہے ہیں، چرچ جلایا جارہا ہے، ۱۱ سالہ بچی ہر توہین کے مقدمات چل رہے ہیں، بھتہ خوری عام ہے، ٹارگٹ کلنگ کا بھول بالا ہے، لیکن ان سب 'چھوٹی خبروں' کے باوجود اہم خبر یہی تھی کہ آج پاکستان فلانے ملک سے کھیلے گا، آج فلانے ملک کو ہرا دیا، آج فلانے سے جیت گیا، علی ہذا القیاس۔

اس کے علاوہ دوسرا ذریعہ معلومات فیس بک تھا۔ اس پر بھی مزے مزے کے تبصرے پڑھنے کو ملے اور کرکٹ کی بہت ساری معلومات حاصل ہوئی۔ بہت سارے تبصروں میں بھارت کا مزاخ بنایا گیا تھا، کئی ایک میں پاکستان کو کرکٹ کا بادشاہ قرار دینے کی کوشش صاف نظر آرہی تھی، کچھ ایسے بھی تھے جن کو پاکستان کی جیت سے زیادہ بھارت کی ہار پر خوشی تھی۔ ہر آدمی کو اپنی رائے دینے کا حق ہے!


میرا خیال یہ ہے کہ کھیل کو کھیل ہی سمجھنا چاہیے۔ اصل میں کل ۲۲ لڑکے کھیل رہے ہیں۔ اب اس کو ملکوں کا مسئلہ بنانا کوئی عقل مندی کی بات نہیں۔ کوئی پیلی کمیز پہنا ہوا ہے، تو کوئی ہری یا نیلی۔ کمیزوں کے رنگوں کا ہی تو فرق ہے ان لڑکوں میں! اصل چیز تو کھیل ہے، اور میری رائے یہ ہے کہ برصغیر کے تمام ممالک کو ایک ٹیم بن کر کھیلنا چاہیے۔ کیوں نا تین پاکستانی کھلاڑی بھارتی ٹیم میں چلے جائیں اور تین ہندیستانی کھلاڑی پاکستانی ٹیم میں آجائیں۔ اس سے دونوں برادر ملکوں میں محبت بھی بڑھے گی اور کھیل کو کھیل کی طرح کھیلا جائے گا، نہ کہ دو ملکوں کے درمیان جنگ کی طرح۔

ویسے بھی یہ ۲۲ لڑکے کسی ملک کے لیے تو نہیں کھیل رہے ہوتے۔ اگر ملٹی نیشنل کمپنی ان کو اسپونسر نہ کریں تو یہ لڑکے کرکٹ کھیلنا تو درکنار، کرکٹ کا بلا بھی نہیں خرید سکتے۔ کھیل حقیقی معنوں میں ایک بہت لمبا اشتہار ہوتا ہے۔ اس اشتہاری موہم میں آپ کو طرح طرح کی کمپنیاں نظر آئےگی۔ اور یہی اس پورے کھیل کی جان ہوتی ہے کہ کتنی کمپنیوں نے کھیل کو اسپونسر کیا ہے۔ اب رہا سوال شاہد خان آفریدی کا یا دھونی کا تو ان میں فرق صرف کمیز کے رنگ کا ہے، باقی طور طریقے، زبان، کرکٹ اسٹائل، وغیرہ سب ایک ہی ہے۔



کھیل عام طور پر قومی پرستی کے جذبات پیدا کرتا ہے۔ ان جذبات سے فرد کا قوم کے ساتھ چند لمحوں کا رشتہ قائم ہوجاتا ہے، اور وہ اس رشتے کی وجہ سے اپنے اوپر ہونے والی تکلیف کو بھی بھول جاتا ہے۔ مثلاً، میرے محلے میں لڑکوں نے مل کر ایک بڑی سی اسکرین سڑک پر سجائی تھی، جس پر پاکستان کا میچ سب لوگ مل کردیکھ رہے تھے۔ جب ۹:۰۰ بجے تو ایک لڑکا بولا کہ "شکر اللہ کا کہ آج لوڈ شیڈینگ نہیں ہوگی!"۔ ویسے اگر کوئی میچ نہ ہوتا تو اس لڑکے کے منہ سے کچھ ایسے الفاظ برآمد ہوتے، "اس ملک میں لائٹ ہے نہ پانی"۔ لیکن اس کرکٹ میچ کی وجہ سے اس پر ایک دوسری قسم کی کیفیت تاری ہوجاتی ہے، اور وہ اپنے بنیادی حق کو ثانی درجے میں شمار کرنے لگتا ہے۔ اگر حقیقی طور پر دیکھا جائے تو اس کھیل میں پاکستان کے جیتنے یا ہارنے سے اس کی ذاتی رندگی پرکوئی اثر نہیں ہوگا، لیکن پھر بھی وہ اس کھیل کو مکمل انہماک سے دیکھتا رہا۔



میں بس میں سفر کررہا تھا تو ایک صاحب نے فرمایا، "پاکستان نے جان بوج کر انڈیا کو جیت دی، کیونکہ اگر پاکستان جیت جاتا تو وہاں موجود مسلمانوں کی زندگیاں خطرے میں آجاتیں"۔ یہ اس چند لمحوں کی قوم پرستی کی انتہائی شکل ہے!

اب کیونکہ پاکستان کھیل سے باہر ہوگیا ہے، اس لیے قوم پرستی کا سحر بھی کچھ کم ہوا ہے۔ اب وہ ۱۱ لڑکے کسی اور اشتہار میں نظر آئیں گے یا کسی اور نجی کمپنی کے لیے کرکٹ کھیلتے ہوئے، جنکہ عام شہری اگلے کرکٹ میچ کا انتظار ہی کرتا رہے گا۔


No comments:

Post a Comment