Saturday, August 11, 2012

جاہلوں سے دوری


دنیا کی سب سے بڑی بُرای شاید جہالت ہے۔ اسکا احساس مجھے کچھ دن پہلے ہوا جب میں چند بےوقفوں سے آغا وقار کے بارے میں بات کررہا تھا۔


کچھ ماہ قبل میں نے ڈیل کارنیگی کی شہرہ آفاق تصنیف "دوست کیسے بنائے جائیں اور لوگوں پر کس طرح حاوی ہوا جائے(How To Win Friends And Influence People) پڑھی تھی، میں نے سوچا کہ ان اصولوں کو اپنے کچھ جاننے والوں پر استعمال کرکہ دیکھا جائے کہ آیا یہ ہر جگہ قابل عمل ہیں یا صرف آمریکہ، یورپ اور ان جیسے ممالک میں ہی ان اصولوں کو اپنایا جاسکتا ہے۔



میں ٹائم ضائع کیے بغیر یہ لکھ دیتا ہوں کہ ڈیل کارنیگی کے چند اصول بے انتہا کرامت ہیں لیکن چند پر عمل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے سامنے ایک "منطقی انسان" کھڑا ہو۔ منطقی انسان وہ ہوتا ہے جو اسی لمحے بحث ختم کردے جس لمحے استدلال ختم ہوجائیں۔ وہ انسانوں کی طرح سامنے والے کی بات سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور جب بات سمجھ آجائے تو اس بات کو بھی اپنی فکر میں محفوظ کرلیتا ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ مخالف رائے کو قبول کرلے، قبولیت کے عمل میں ہمیشہ کچھ وقت درکار ہوتا ہے، لیکن یہ ضرور ہے کہ وہ کبھی بھی اپنی رائے کو اپنے عقیدے یا اپنی انا کا مسئلہ نہیں بناتا۔ دوسری طرف ایک "غیر منطقی انسان" وہ ہوتا ہے جوکہ اپنی رائے کو صحیح کہلوانے کے لیے ہر علمیت کا انکار کرتا ہے، وہ عقلی دلائل، تاریخی واقعات اور سائنسی حقیقتوں ، سب کا انکار کردیتا ہے۔ اور اپنی جہالت کے جھوٹے طلسم کو ثابت کرنے لیے طرح طرح کی الٹی سیدھی باتیں کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ کیا تعلق رکھا جائے؟ ایسے 'دوستوں' کے بارے میں کیا رائے رکھی جائے؟ یہ سوالات کسی اور مضمون کیلئے چھوڑ دیتا ہوں۔ آج کا موضوع ہے "حضرت آغا وقار عرف پانی والے بابا"۔

جیسا کہ میں نے شروعات میں لکھا ہے، گفتگو بے وقفوں کہ ساتھ تھی، لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ اس کا اندازہ مجھے بہت وقت گزرنے کے بعد ہوا، جس کا اب کوئی فائدہ نہیں تھا۔

گفتگو کی شروعات اس طرح ہوئی کہ ٹی-وی پر اچانک سےآغا وقار اور ان کی ایجاد کی خبر دیکھنے کو ملی۔ اس پر افتخار صاحب (ان کا اصل نام یہ نہیں ہے) نے کہا، "یہ دیکھو! بہت جلد پاکستان میں ہر گاڑی پانی پر چلنے لگے گی، ہمارا قیمتی زرِ مبادلہ جو پیٹرول خریدنے میں ضائع ہوتا ہے، وہ دوسرے شعبوں میں لگ سکے گا۔ حکومت بھی اس موضوع میں انٹرسٹ (interest) لے رہی ہے۔ آج کی خبر ہے کہ راجہ پرویز اشرف بھی ۵۰ لاکھ روپے کی رقم پانی والی گاڑی کے منصوبے کیلئے مختص کررہے ہیں، سندھ حکومت بھی اس پروجیکٹ میں دلچسپی رکھتی ہے۔ انشاء اللہ پاکستان کی تقدیر بدلنے والی ہے۔"



یہ ان کی باتوں کا لبِ لباب ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھ سے یہ 'بکواس' بلکل نہیں سنی گئی۔ کئی بار ان کی بات کاٹنے کی 'بداخلاقی' سرزد ہوئی۔ لیکن مجھے اس 'بد اخلاقی' پر کوئی افسوس نہیں۔ ایسے لوگوں پر یہ ضرور ثابت کرنا چاہیے کہ وہ اپنی جہالت میں ابتری کے آخری درجہ پر پہنچ گئے ہیں۔ اگر ان کی عمر آپ سے زیادہ ہے، تو اس میں ان کا کوئی کمال نہیں، بات صرف اتنی ہے کہ خدا نے ان کو دنیا میں آپ سے پہلے بھیج دیا تھا۔ اس میں نہ کوئی فخر کی بات ہے اور نہ کوئی شرم کی بات ہے۔ فارسی کا مقولہ "خطا گرفتنِ بزرگاں خطا است" شاید انٹرنیٹ کے اس دور میں ہربزرگ کے لیے درست نہیں۔ میں تو اس مقولے میں اس طرح ترمیم کروں گا، "احتمالاً،خطا گرفتنِ بزرگاں خطا باشد"۔ (امکان ہے کہ بزرگوں کی خطا پکڑنا خطا ہو، یعنی ضروری نہیں ہے کہ وہ ہر بار صحیح ہوں۔)

خیر یہ باتیں ایک طرف، لیکن کیونکہ افتخار صاحب کا سائنس سے کچھ تعلق رہا ہے، اس لیے میں نے ان سے پوچھا، "لیکن یہ انجن تو تھرموڈائینمکس (thermodynamics) کے دوسرے اصول کے خلاف جارہا ہے، آپ آسمانوں پر قلعے کیوں تعمیر کررہے ہیں؟"


"کمیل، تمہارا مسئلہ یہ ہے کہ تم کو پاکستان میں کوئی اچھی چیز نظر نہیں آتی، ہر چیز پر تنقید۔ کیاتھرموڈائینمکس کے اصول کسی آسمانی صحیفے میں لکھے ہیں، کہ ان کی خلاف ورزی نہیں ہوسکتی۔ انسانوں کے بنائے ہوئے اصول ہیں، آج کچھ ہوں گے، کل کچھ اور ہوجائیں گے۔"

جہالت کی پہلی نظیر، بات سائنس کی ہورہی ہے، اور اچانک چھلانگ آسمانی صحیفے پر مار دی! اور پھر سائنس کے بنیادی اصولوں پر بغیر کسی دلیل کے شک! اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ انسانوں کے بنائے ہوئے اصول نہیں ہیں، بلکہ انسانوں کے دریافت کردہ اصول ہیں۔ یہ اصول اسی دن وجود میں آگئے تھے جس دن کائنات وجود میں آئی تھی۔


خیر آگے سنئیے، " کیا خصرت آدم کے زمانے میں کوئی سوچ سکتا تھا کہ ٹی-وی ایجاد ہوجائے گا۔ کیا آج سے سو سال پہلے کوئی ایٹم کی طاقت کا سوچ سکتا تھا۔ کیا کوئی کمپیوٹر کی ایجاد کا سوچ سکتا تھا۔ بلکل نہیں! یہ سب ناممکن انسانی کاوشوں سے ممکن بنے ہیں"

کمزور دلیل کی دوسری نظیر، بات سائنس کے اصولوں کی ہورہی ہے، اور افتخار صاحب نے چھلانک ایجادات پر لگا دی۔



"آپ جو چیزیں بتا رہے ہیں وہ فزکس کے اصولوں کی خلاف ورزی نہیں کرتی ہیں۔ کمپوٹر، ٹی-وی، اٹیم کی طاقت کی دریافت، سب کچھ فزکس کے اصولوں کے تحت ہی ہوا ہے، اصول کی مخالفت میں نہیں۔ آغا وقار کی ایجاد فزکس کے اصولوں کے خلاف ہے، یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ میرا گھر ہوا میں اڑ رہا ہے، یہ دو جمع دو چھ ہوتا ہے۔"



"ہاں تو اگر ایسا ہے، تو میں کہوں گا کہ تھرموڈائینمکس کے اصول یا تو آپ نے غلط سمجھے ہیں یا اب ان میں ترمیم کی ضرورت ہے۔"

مجھے تو اس جملے پر بے انتہا ہنسی آئی۔ ہنسی چھپانے کی لیے میں بول پڑا،"چلیں میں نے تو غلط ہوں، آپ کی ڈاکٹر ہود بھائی اور ڈاکٹر عطا الرحمن کے بارے میں کیا رائے ہے؟"

"ان دونون کی میں بھی عزت کرتا ہوں لیکن ڈاکٹر ثمر مبارک مند اور ڈاکٹر قدیر خان نے اس ایجاد کی حمایت کی ہے"۔


جہالت کی تیسری نظیر۔ انھوں نے سائنس کو کسی تقلیدی سلسلے میں تبدیل کردیا ۔ آپ حضرتہود بھائی کی پیروی کریں اور میں حضرت قدیر خان کی کروں گا۔ اس پر میں کیا کہتا، افتخار صاحب کو سائنس کا تھوڑا بہت علم ضرور تھا، وہ کوئی گاوں میں نہیں ریتے تھے کہ ان کو یہی علم نہ ہو کے سائنس کیا ہوتی ہے۔ اس جملے پر مجھے ان کی ذہنی سطح کا اندازہ ہوگیا۔ میں چاہتا تھا جلد سے جلد بات ختم ہو، لیکن انھوں نے ایک نیا چٹکلا چھوڑ دیا جو کے ان تمام لطیفوں سے بڑا لطیفہ تھا۔

"اگر یہ ایجاد عام ہوجاتی ہے تو پوری دنیا میں پیٹرول کی کمپنیاں بند ہوجائیں گی، امریکہ کبھی بھی اس بات کی اجازت نہیں دے گا کہ تیل کے ذخیروں پر اس کی گرفت کمزور ہو۔ اگر یہ ایجاد عام ہوجاتی ہے تو، امریکہ جس تیل کو عراق سے چوری کررہا ہے، تو اس کا کیا ہوگا؟"


ڈیل کارنیگی نے بلکل صحیح لکھا ہے، اگر آپ کو کوئی سخت بات کہنی ہو تو پہلے سامنے والے کو یہ تائثر ضرور دو کہ وہ کبھی غلط نہیں ہوسکتا اور آپ کے غلط ہونے کا امکان ہمیشہ رہتا ہے۔


میں نے یہ جملے کہہ کر گفتگو ختم کی، "میں آپ کی رائے سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔ مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے۔ واقعی اس کے پیچھے امریکا ہی ہے۔ لیکن ایک بات میں ضرور کہوں گا کہ آپ کی عمر ۴۰ سے اوپر ہوچکی ہے لیکن ذہنی سطح ابھی بھی بچپنے والی ہے۔"

No comments:

Post a Comment