Showing posts with label Satire. Show all posts
Showing posts with label Satire. Show all posts

Sunday, October 21, 2012

فنکار ڈاکٹر

فنکار. ذرائع: jalopnik.com

نہ باپ کو احساس ہوا کہ آدمی ڈاکٹر نہیں ہے، نہ بچے کو، اور شاید اب ڈاکٹر صاحب خود بھی بھول گئے ہوں گے کہ وہ ڈاکٹر نہیں ہیں۔

"ڈاکٹر صاحب! میری سیدھی آنکھ میں کئی دنوں سے درد ہورہا ہے، معلوم نہیں کیوں"، میرے برابر بیٹھے آٹھوئیں جماعت کے لڑکے نے ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں داخل ہوتے ہی بولا۔



مجھے ڈاکٹر صاحب کے کمرے کا حال معلوم نہیں کیونکہ دروازے کے دوسری طرف کا منطر میری نظر میں نہیں آرہا تھا۔ مگر کیونکہ دکان بہت چھوٹی سی تھی، اس لیے آواز صاف صاف سنائی دے رہی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کی آواز زید حامد کی دوسری کاپی تھی، پر ہنسی مِیرا جیسی تھی، بہت ہی باریک سی۔



"بیٹا آپ کا نام کیا ہے"، ڈاکٹر صاحب نے دھیمی آواز میں دریافت کیا۔

"حزیفہ"، بچے نے جواب دیا

"ماشاء اللہ! بہت خوبصورت نام ہے"، ماشاءاللہ بلکل اس طرح بولا جیسے عامر لیاقت کی زبان سے آپ نے سنا ہوگا۔
"حزیفہ بیٹا، آپ اپنی ٹھوڑی مشین پر رکھ دیں، اور جس طرح میں کہوں ، ویسے ویسے آپ کو کرنا ہے، بسم اللہ۔۔۔۔"
"ٹھوڑی؟؟"
"یعنی chin", ڈاکٹر نے جواب دیا۔




میں دکان پر اپنی عینک کا لینس خریدنے کئلیے گیا تھا، پر مجھے ڈاکٹر صاحب کی آواز ایسی لگ رہی تھی جیسے میں نے پہلے کہی سنی ہو، یہ دکان میرے محلے میں ہی ہے، اس لیے مجھے اور شک ہوا کہ یہ کوئی جانی پہچانی آواز ہے، پر یہ آواز کس کی تھی، اس کی تصویر ابھی بھی ذہن میں نہیں آرہی تھی۔ میں بھی ڈاکٹر صاحب کا انتطار کرنے کے بہانے مختلف قسم کے فریم دیکھتا رہا۔

"حزیفہ بیٹا، آپ کی دائیں آنکھ کا نمبر ۲ ہے، جب کہ بائیں آنکھ کا کچھ کم ہے"، ڈاکٹر نے کہا۔ مجھے آواز کچھ بناوٹی سی محسوس ہوئی، جیسے آدمی زبردستی اپنا لہجہ بدلنے کی کوشش کررہا ہو، جیسے ہمارے یہاں عام طور پر لوگوں کا مزاج ہے کہ مصنوعی طریقوں سے جلدی بڑا آدمی بن جائیں، یہی چیز مجھے اس لہجے میں سنائی دے رہی تھی۔




اس ہی جملے پر گفتگو ختم ہوئی اور ڈاکٹر صاحب اپنے حجرے سے باہر نکلے۔ میں حیران رہ گیا!!



وہ سفید ڈنٹونک والے دانت، وہ ہی کالی ٹوپی، وہ ہی سفید بھارتی کڑائی والی کمیز، وہ ہی بغیر فریم کا چشمہ لگائے ایک معصوم سا مجسمہ اپنے حجرے سے نکلا۔ آج سے کوئی دو سال پہلے یہ صاحب جو اپنے آپ کو "ڈاکٹر صاحب، ڈاکٹر صاحب" کہلوا رہے تھے، اس ہی دکان پر عینک فروخت کرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب اس دکان پر کوئی اور ہوا کرتے تھے، ان کے پاس واقعی تین چار ڈگریاں تھی اور ان کے پاس یہ حق بھی تھا کہ وہ اپنے آپ کو ڈاکٹر کہلوائیں۔



مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ اتنی جلدی یہ صاحب بھی ڈاکٹر بن گئے، ویسے بھی ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے، اصلی ہو کہ نکلی۔



"حریفہ، آپ کو کون سا فریم چائیے؟"، ڈاکٹر نے دریافت کیا
"رے بن"
"ہی ہی ہی، انکل، یہ صحیح معنوں میں آپ کے پیسے مُکانا چارہا ہے"، ڈاکٹر نے حزیفہ کے والد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔




نہ باپ کو احساس ہوا کہ آدمی ڈاکٹر نہیں ہے، نہ بچے کو، اور شاید اب ڈاکٹر صاحب خود بھی بھول گئے ہوں گے کہ وہ ڈاکٹر نہیں ہیں۔ اب تو وہ فر فر مشکل داوں کے نام بھی لے رہے تھے۔



مجھے نہیں معلوم کہ ان صاحب نے میری شکل پہنچانی یا نہیں، کیونکہ دو سال پہلے، وہ مجھے عینک بیچنے میں بری طرح فیل ہوگئے تھے۔ مجھے ان کی شکل صرف اس لیے یاد رہی کیونکہ ان کی آواز زید حامد جیسی تھی۔



میں نے اپنی عینک لی اور دکان سے باہر نکل آیا۔ 



میں نے نتیجا یہ نکالا کہ فنکاروں کو کسی ڈگری کی ضرورت نہیں ہوتی، وہ اس ملک میں ہر طرح کامیاب ہیں۔

Wednesday, October 17, 2012

پاکستان کی جدید الف بے

ان جدید حروف تہجی میں "ث"، "ڑ"، اور "ژ" سے کوئی لفظ شروع نہیں ہوتا۔ امید ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ لوگ نئے الفاظ بھی ایجاد کرلیں گے، جس طرح یہ الٹے سیدھے دلائل دریافت کرلیتے ہیں۔

ملالہ کے واقعے سے ایک بات کا پتہ ضرور چلا کہ ابھی بھی اعتدال پسند آواز زندہ ہے۔ ابھی بھی یہ آواز اپنی بات منوانے کی کوشش کررہی ہے، ابھی بھی یہ آواز دریا بہ دریا، کوہ بہ کوہ امن کا پیغام آگے بڑھا رہی ہے۔ یہی وہ آواز ہے جو اس ملک میں تبدیلی لائے گی اور ترقی کی ذامن بنے گی۔

لیکن جیسے کہ میں نے پچھلے بلاگ میں لکھا تھا، ذہنی مریضوں کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جن کو اس انسانیت سوز واقعے میں بھی سازش کی 'خوشبو' آرہی۔ ان کی عجیب و غریب دلائل کے بارے میں میں پچھلی بار لکھ چکا ہوں۔ نقل دلیل دلیل نباشد۔


آج میں ایک فرضی اردو حروفِ تہجی کی کتاب کا خاکہ پیش کررہا ہوں۔ یہ فرضی کتاب ذہنی مریضوں کیلئے ہے۔ اس کتاب کے کئی الفاظ آپ روز ٹی-وی، اخبار، اس-ایم-اس، انٹرنیٹ، وغیرہ پر پڑھ چکے ہیں۔ یہ الفاظ بہت تیزی کے ساتھ اعتدال پسند سماج کا حصہ بن رہے ہیں، اس لیے اب وقت آکیا ہے کہ ان کو ایک جگہ اکھٹا کیا جائے۔



مریضوں کی اردو


ان جدید حروف تہجی میں "ث"، "ڑ"، اور "ژ" سے کوئی لفظ شروع نہیں ہوتا۔ یہ بلکل ویسی ہی بات ہے جیسے کہ عربی میں "پ" نہیں ہوتا اور فارسی میں "ڈ" نہیں ہوتا۔ امید ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ لوگ نئے الفاظ بھی ایجاد کرلیں گے، جس طرح یہ الٹے سیدھے دلائل دریافت کرلیتے ہیں۔

Saturday, July 7, 2012

یار پیٹر ہگس ہم سے سیکھو۔۔۔۔

پروفیسر پیٹر ہگس

آج کل دنیا میں 'ہگس ذرہ' موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ ماہرینِ طبعیات کا کہنا ہے کہ یہ ذرہ کائنات کے چھپے رازوں کو سمجھنے میں مدد فراہم کرے گا، مثلاً یہ کے معادے میں وزن کہاں سے آتا ہے؟ اور چاند، ستارے، سیارے، کہکشائیں، کیسے آپس میں جڑی رہتی ہیں۔ یورپ کی خبروں سے ایسا معلوم ہوتا ہے شاید یہ بہت ہی بڑی پیش کوئی رفت ہو۔ آپ چاہیں ڈیوچے ویلا دیکھ لیں یا سی-این-این سن لیں، ہر چینل اس کو ایک بہت بڑے 'بریک تھرو' سے مماثلت دے رہا ہے۔ آخری بار اس قسم کی میڈیا کوریج سائنس کو جب دی گئی تھی جب آنسٹائن کے نظریوں کے صحیح یا غلط ہونے پر بحث چھڑی تھی۔ یہ بحث بھی کئی دن چلی، اور آخر میں معلوم ہوا کے تجربہ کرنے والے کی اپنی غلطی تھی جس وجہ سے نتیجہ غلط نکلا، نہ کہ آنستائنکا فرمولا غلط ہو۔

مگر دوسری طرف ان خبروں کو پاکستان میں زیادہ اہمیت نہیں دی گئی۔ ظاہر ہے، پاکستانیوں کے لیے پیٹر ہگس اور آنسٹائن معمولی لوگ ہیں۔ بچارے ٹائم ضائع کرتے ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ایک اسمارٹ فون خریدتے اور زندگی کا لطف اٹھاتے۔ یا فیس بک جوائن کرلیتے۔ فیس بک پر برقے کی اہمیت، اسلام کی سربُلندی، اور عورت کی شریعی احیاء کے دستوروں پر ہی کچھ شئیر کرکے ثواب کما لیتے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ایس-ایم-ایس کا نائٹ پیکج آن کرکے رمضان شروع ہونے سے بیس دن پہلے سے 'رمضان ایڈوانس مبارک' کے پیغمات بھیجتے، یہ کوئی حدیث شئیر کرتے یہ کسی بڑے بزرگ کا کوئی قول۔ بلکہ یہ تو بہت ذہین لوگ ہیں، ان کو تو شاید ۲۰۱۴،۲۰۱۵، اور قیامت تک آنے والے تمام رمضانوں کی ایڈوانس مبارکباد بھیجنی چائیے تھی۔ اور اگر نقاب پر انتا زور دیتے جتنا فیس بک پر نظر آتا ہے، تو فزکس کی قسم! تمام عورتیں، باوسیلہ فیس بک نقاب پوش ہوجاتیں۔ اب دیکھو فرانس میں ۲،۰۰۰ نقاب پوش عورتوں کے لیے شور مچتا ہے، لیکن جن ہزاروں عورتوں پر پاکستان میں ظلم ہوتا ہے، اس پر کوئی بات نہیں ہوتی۔

پیڑ ہگس، تم نے تو اتنی تحقیق کرکے بس اتنی سی بات معلوم کی ہے۔ یار! فیس بک استعمال کرو۔ ہر چیز کے لیے مذہنی تاویل تم کو مل جائے گی، چائے بیگ بانگ ہو، انسان کا پیدا ہونا ہو، گرانڈ یونیفکیشن(Grand Unification) کا نظریہ ہو، بگ کرانچ(Big Crunch) کی بات ہو، غرض کے کوئی بھی سائنسی نظریہ ہو، فیس بک پر ہر بات کی کوئی اسلامی تاویل مل جائے گی۔ بھاڑ میں جائے یہ نوبل پرائز، بھاڑ میں جائے طبعیات، بھائی فیس بک پر آو اور ہم سے سیکھو!

چلو آنسٹائن کے زمانے میں نیٹ ایجاد نہیں ہوا تھا ، پر پیٹر ہگس! تم ۸۳ سال کے ہوگئے ہو تم کو یہ بات سمجھ کیوں نہیں آئے؟ ابھی تو بہت بڑے بڑے کام باقی ہیں، تم کن دو دو روپے کی چیزوں میں وقت ضائع کررہے ہو۔ مجھے تو برہمن نسل پاکستانیوں نے بتایا ہے کہ جس کام میں پیسہ نہ ہو وہ بکار ہے۔ اب پیڑ تم یہ ذرے کس دکان پر بیچو گے، میں تم نہیں خرید رہا!!! ہاہاہاہا

اور یہ ایٹم کیا ہوتا ہے؟ اصل چیز تو ایٹم بم ہے، میرے پاس تو بہت سارے ہیں، تمھارے پاس کتنے ہیں؟ تم بس ان ذروں کے چکر میں پڑے رہو! ہم پاکستانیوں سے ہی کچھ سیکھ لو۔ کیا تمھاری تحقیق سے کوئی نیا اسلحہ بن سکتا ہے؟ کیا ہم ہگس ذرے سے زیادہ لوگوں کو مار سکتے ہیں؟ کیا افواج کو اس کا فائدہ ہے؟ اگر ان سب سوالوں کا جواب نفی میں ہے ، تو مجھے مسڑ بہت افسوس ہے کہ تمھاری تحقیق میرے کسی کام کی نہیں۔

یار آنسٹائن ہم تو ہٹلر کے برابر کے لوگوں ہیں۔ ہماری یہاں بھی روز قتل ہوتا ہے، روز معصوم لوگ مرتے ہیں۔ پرسوں ہی ہم نے ایک آدمی کو زندہ جلادیا، کل ہم نے تربت سے ایران جانے والی گاڑی پر حملہ کردیا، آج ہم نے کراچی میں تین لوگوں کو مار دیا۔ چلو ہٹلر سے مقابلہ نہ صحیح، لیکن ہٹلرِ ثانی تو ہم بھی ہیں نا۔ اب تم ڈرو مت، ہم نے کل روس کو مار بھگایا، آج آمریکہ ہار رہا ہے۔

تو مسڑ ہگس، آپ پاکستان کب آرہے ہیں؟

Monday, May 21, 2012

محکوموں کی حاکمیت

ٹی وی پر ایک مولوی صاحب گلا پھاڑ پھاڑ کر کچھ کہہ رہے تھے۔ چہرے پر گہری سنجیدگی، ہاتھ کے اشعارے سے معلوم ہوتا جیسے ہٹلر کا پنرجنم ہوگیا ہو۔ کپڑے ایسے سفید کہ سننے والے کی آنکھیں ان کی طرف کھینچتی چلی جائیں۔ سر پر دستار سے عالم ہونے کا شائبہ ہوتا تھا، اور تقریر تو گویا غضب کی کررہے تھے:


"ان ظلم کی علامتوں، جن کو شریعت طاغوت کہتی ہے، نے ہمارے ہزاروں بھائیوں کو مارا ہے۔ ان کا راستہ رکھنا نہ صرف ہماری مذھبی ذمہ داری ہے بلکہ قومی غیرت کی بھی یہی آواز ہے! اقبال نے کہا تھا، نیل کے ساحل سے تا باخاک کاشغر، ہر جگہ اسلام کی حفاظت، میرے بھائیوں، ہماری ذمہ داری ہے۔ ہم کسی حال میں بھی ناٹو کا راستہ نہیں کھولنے دیں گے۔ ظالم کو ہماری قوت کا ابھی اندازہ نہیں۔۔۔۔۔۔"


اور معلوم نہیں حضرت جوش خطابت میں کیا کیا بولتے چلے گئے، لیکن لبِ لباب یہی تھا۔ ایک انجان دشمن، ایک خودساختہ طاقت کا گھمنڈ، اقبال کا ایک شعر، اور اس سب پر اسلام کا تڑکا۔ نعروں کی گونج، سماعتوں پر وجد طاری کردیتی۔ بالکل کسی فلم کا سین معلوم ہوتا، جس میں ادا کار خوب مشق کرکے آیا ہو۔


یہ سارا ڈرامہ ۱۸ سالہ سلیم اپنی ٹی - وی اسکرین پر دیکھ رہا تھا۔ اس کے والد، محمد عطااللہ نے نیا نیا ٹی-وی اپنی بیگم کے لیے خریدا تھا۔عطااللہ پشاور سے تعلق رکھتا تھا اور پیشے کے اعتبار سے ایک ٹرک ڈرائیور تھا۔ عام طور سے وہ گھر سے باہر ہی رہتا، لیکن سرکار کی طرف سے ناٹو پر حالیہ پابندی نے اس کو بےروزگار کردیا تھا۔ اس کے پاس کرنے کو کچھ زیادہ نہیں تھا۔ وہ روز اس امید میں ٹرک اڈے کا چکر لگاتا کہ شاید آج کوئی نویدِ سحر سنے کو ملے۔ لیکن وہ آج بھی ،روز کی طرح، گھر ناامید لوٹا۔ گھر کا انتظام یا تو قرض پر چلتا یا وہ دہاڑی پر کوئی چھوٹا موٹا کام کر لیتا۔ پیسوں کی کمی نے اسے چڑچڑا بھی بنا دیا تھا، اب اس نے دگنی سیگرٹ پینا شروع کردی تھی، اور غصہ میں بھی جلدی آجاتا تھا۔ بیوی سے لڑائی بھی عام بات ہوگئی تھی، اس کا واحد دوست، اس کا بیٹا، سلیم ہی تھا۔


محمد عطااللہ ابھی ابھی گھر میں داخل ہی ہوا تھا، جب اس نے مولوی صاحب کی زبان سے ادا کردہ کلمات سنے۔ ہونتوں کی لرزش تو سنائی نہ دی، پر آنکھوں میں شدید غم و غصہ تھا۔ شاید سلیم کی وجہ سے اس نے اپنے غصہ کو پی لیا۔


"ابا! یہ ظلم کی علامتیں مولوی صاحب کن کو کہہ رہے ہیں؟ جن لوگوں کی وجہ سے آپ کی نوکری چھٹی ہے؟"، سلیم نے معصومیت سے دریافت کیا۔


بیٹے کا سوال واقعی منطقی تھا، باپ کیا جواب دیتا، "نہیں بیٹا، یہ آمریکہ کو بول رہے ہیں، امریکہ کے ہزاروں فوجی، افغانستان میں مصروفِ جنگ ہیں۔ یہ ان کی بات کررہے ہیں۔"، عطااللہ نے جواب دیا


"لیکن ابا! زیادہ بڑے دشمن تو یہ مولوی ہوئے، دیکھو نا، امّا کی طبعیت بھی خراب ہے، میں اسکول بھی نہیں جا پارہا، آپ بھی بے روزگار ہیں؟ اور یہ سب مولوی صاحب کی تقریر کی وجہ سے ہوا ہے۔ خود تو یہ ٹرک چلاتے نہیں، اور دوسروں کو بھی چلانے نہیں دیتے"، سلیم نے سریعاً جواب دیا۔

بیٹے کا استدلال کامل تھا، اور والد کے جذبات کی ترجمانی بھی کرتا تھا، لیکن معلوم نہیں عطااللہ کو کس طاقت نے مجبور کیا، وہ بول پڑا، "بیٹا، ان لوگوں نے ہمارے چوبیس فوجیوں کو شہید کیا تھا، یہ اس کے ردِعمل میں کیا گیا ہے۔ یہ قومی غیرت کا سوال ہے۔" یہ جملے بولتے ہوئے عطااللہ کا دل اس کی زبان کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔

مانگنے والے کی کون سے غیرت، غیرت مندی اور جذباتیت میں فرق ہوتا ہے۔ ایک جذباتی غیرت مند خودکشی کرنے کو ترجیح دیتا ہے، جبکہ ایک باہوشغیرت مند اپنے قدموں پر کھڑے ہونے کو ترجیح دیتا ہے۔ عطااللہ جانتا تھا کہ جو مولوی صاحب آج غیرت کا لیکچر دے رہے ہیں، وہ ۸۰ کی دہائی میں امریکہ کے قریبی یاروں میں سے تھے۔ آج غیرت کہاں سے یاد آگئی؟


لیکن یہ سب جانتے ہوئے بھی، عطااللہ نے اپنے بیٹے کو غیرت کا سبق سنا ہی دیا، حالا نکہ وہ اس کی حقیقت سے واقف تھا۔ ممکن ہے کے سماج کے بے پناہ جبر نے اس کو یہ کلمات ادا کرنے پر مجبور کیا ہو۔ واللہ و اعلم۔


"ابا! آپ نے ہی مجھے بتایا تھا کہ غیرت تو ایک کیفیت کا نام ہے، یہ کوئی ٹھوس چیز نہیں، جس کو دیکھا جاسکے۔ ان لوگوں کو کس نے اجازت دی ہے کہ یہ غیرت اور بے غیرتی کا تعین کریں؟ ان کا تو تاریخی وجود ہی آمریکہ- روس جنگ کے پسِ منظر میں ہوا ہے۔ یہ کون سی غیرت ہے کہ آدمی اپنے وجود سے ہی منحرف ہوجائے؟ اور اگر یہ واقعی فوج سے محبت کرتیں ہیں، تو ان پچیس فوجیوں کی شہادت پر کیوں احتجاج نہیں کرتے، جن کو مذھبی انتہا پسندوں نے شھید کیا تھا۔ ان لوگوں نے کل کے روز ہمارے شہر میں ایک مندر کو بھی نقصان پہنچایا۔ اس پر یہ اس قسم کی تقریریں کیوں نہیں کرتے؟"


باب نے کوئی جواب یہ دیا۔ شاید پسر کو پدر سے زیادہ معلومات تھی۔ محکوموں کی غیرت شاید صرف اتنی ہی ہوتی ہے کا ایک ۱۸ سال کے بچے کا جواب دینا بھی مشکل ہوجائے۔۔۔۔

Thursday, May 17, 2012

جھنڈا اور افتخار


افتخار چار یا پانچ دنوں سے پاکستان کا جھنڈا آسمان پر لہرا رہا تھا۔ جھنڈا پورانا ہوچکا تھا اور کیونکہ بستی بہت غریب تھی اس لیے نیا خریدنا ممکن نہ تھا۔ بقول دادا جان کہ جھنڈا خریدنے سے تو بہتر ہے کسے غریب لڑکی کے جہیز کا انتظام کردو۔ "پاکستان کا جھنڈا ہو یا اسرائیل کا، جھنڈا تو جھنڈا ہوتا ہے، اپنا ہو یا پرایا"۔ دادا جان یہ جملہ ہنستے ہوئے کہتے تو بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کی بات یاد آجاتی، جن کا کہنا تھا کہ "ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے، اصلی ہو یا نقلی"۔ مجھے تو دونوں کی باتیں ہی درست لگتی ہیں۔

پر دادا جان کا پاکستان کے جھنڈے پر الگ ہی نقطہ نظر تھا۔ وہ کہتے کہ یہ تارہ اور چاند تو ترک غلامی کی نشانی معلوم ہوتی ہے۔ "دیکھو، جھوٹ کی بھی انتہاہ ہوتی ہے، غلامی آمریکہ کی اور نشانی ترکوں کی!"، دادا جان طنزیہ انداز میں کہتے۔

"لیکن تارے تو امریکہ کے جھنڈے پر بھی ہیں دادا جان؟"، سلمان، افتخار کا جھوٹا بھائی، نے دادا جان سے استفسار کیا۔

"سلمان صحیح کہا تم نے، تارے تو امریکہ کے جھنڈے پر بھی ہیں، لیکن وہ تارے غلامی کی نشانی نہیں، بلکہ امریکہ کی ہر ریاست تارے کے مانند ہے، وہ تارے استعارے کے طور پر ہیں، نہ کہ غلامی کی جھوٹی داستان"۔ 

کچھ غور کے بعد، سلمان بولا، "ہاں، ہمارا ملک تو، ایک ملک ہے نا، ہم پورے کے پورے ایک تارے کے مانند۔۔۔۔"
یہ جملہ سلمان بول ہی رہا تھا کہ ٹی-وی پر جناب عطا اللہ مینگل کا بیان آیا کہ، "ہم پر پنجابی فوج نے جو ظلم کیے ہیں، ان کا بدلہ صرف آزادی ہے"

سلمان اپنا جملہ مکمل نہ کرپایا۔ ایک ہی تارے کے اندر اتنی پھوٹ، کمال ہے!

دادا جان ہنسے اور بولے، "لال، سفید، پیلے تاروں سے قومیں ایک نہیں ہوتی، جب کسی گروہ کے معاشی مفادات اور سماج محفوظ نہ ہوں، تو تارے، بمبئی کے کسی ڈسکو میں تو اچھے لگیں گیں، جھنڈے پر نہیں۔"


افتخار جھنڈے کی حفاظت کسی مقدس اوراق کی طرح  کرتا۔ اس کے نزدیک چاند تارہ اسلام کی نشانی تھی۔  لیکن افتخار 'بدقسمتی' سے بنگلادیش کا جھنڈا بھی دیکھ چکا تھا۔ اب اگر یہ اسلام کی نشانی تھی، تو اس کا الہام صرف پاکستانیوں پر کیوں ہوا تھا، اور کیا پاکستانی نامی مخلوق دوسرے مسلم ملکوں سے زیادہ پرہیزگار ہیں؟ ساٹھ سال پہلے 'اسلام کا جھنڈا' کیسا تھا؟  اور اگر یہ 'اسلام کا جھنڈا' ہے تو بلوچی بھی تو مسلمان ہوتے ہیں، وہ کیوں نہیں لگا رہے۔

افتخار نے ایسا ہی'چاند تارہ چودھری رحمت علی کی ٹوپی پر بھی دیکھا تھا، پر وہ تو پاکستان میں رہنا درکنار، سپردِ خاک بھی کیمبرج میں ہوئے۔


"آخر یہ چاند تارہ، اتنا پیچیدہ مسئلہ کیوں ہیں"، افتخار حالتِ اضطراب میں ہم کلامی کرتے ہوئے بولا۔

" کبھی کبھار جب کوئی چیز بہت کھوکھلی ہوتی ہے، تو اس کو خواہ مخواہ پیچیدہ بنایا جاتا ہے، یہ بھی ایک فن ہے! کپڑے کا جھنڈا تو جب سمجھ میں آئے جب تن پر کپڑا ہو۔"، دادا جان ہم کلامی کے انداز میں بولے۔

یہ گفتگو چل ہی رہی تھی کے ایک لڑکا افتخار کے باغیچہ میں کودا اور افتخار کا جھنڈا لے کر بھاگا۔ 

"میرا جھنڈا مجھے واپس کرو!!"، افتخار زور سے چیخا ۔

"میری پتنگ بجلی کے کھمبے میں پھنس گئی ہے، پہلے پتنگ نکال لوں، پھر واپس کردوں گا۔"، یہ کہتا ہوا وہ کھمبے کی طرف بھاگا اور پتنگ باآسانی نکال لی۔  اس نے وہیں سےجھنڈے کوتیر کی طرح پکڑا اور افتخار کے باغیچہ کی طرف دے مارا۔ 


جھنڈا ہوا میں اڑتا اڑتا، افتخار کے باغیچہ میں آگرا اور نرم مٹی میں ایستادہ کھڑا ہوگیا۔

"اگر جھنڈا نہ ہوتا تو پتنگ کوئی اور چرا لیتا، پاکستان زندہ باد!"، یہ کہتے ہوئے وہ بچہ پتنگ اڑانے میں مشغول ہوگیا، جبکہ افتخار تقدس کا ہی سوچتا رہا۔۔۔۔۔۔

Monday, April 16, 2012

ایک ممکنہ ملاقات کا احوال

یہ مضمون میں دوران انتظار لکھ رہا ہوں۔ انتظار ہے ایک صاحب کا جن سے مجھے ملاقات کرنی ہے۔ لیکن پاکستانی عادات و رسمات کے مطابق یہاں پر بھی وقت کی پابندی نہیں کی گئی۔ وہی 'میں نہ مانوں' والی عادت۔ حضرات نے مجھ سے فرمایا تھا کہ 10 بجے تشریف لائیے گا۔ میں نے غلطی سے وقت کی پابندی کا گناہ سرزد کردیا۔ میں ٹھیک 10 بجے پہنچ گیا۔ وہاں پہنچا کر پتہ چلا کہ حضور ابھی تشریف ہی نہیں لائے ہیں۔ دس منٹ انتظار کیا، اور پھر ان کو فون کردیا۔۔
میں نے کہا، "سلام علیکم"
"وعلیکم سلام"
"سر میں کمیل بات کر رہا ہوں، آپ نے مجھے 10   
بجے    آنے کو کہا تھا"
"جی کمیل صاحب، لیکن آپ نے confirm نہیں کیا"
"جی confirm نہیں کیا؟"
" جی، آپ کو چاہیے تھا کہ آپ مجھے دوبارہ کال کرتے کہ میں دس بجے آؤں گا"

یہ جملہ سن کر میں دل ہی دل میں اس 'جھگاڑ' پر ہنس پڑھا۔ بجائے یہ کہ وہ معذرت کرتے یا کوئی اور علت فراہم کرتے، حضرت نے سارا ملبہ میرے سر پر ہی ڈال دیا۔ اگرچہ حضرت ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں لیکن یورپ کی طرح پابندی وقت کی عادت ان میں پیدا نہ ہوئی۔

خیر میں نے ان کی یہ بات سنی انسنی کردی اور پوچھا، "اب ملاقات کب ہو سکتی ہے؟"

"میں تو ابھی مرکزی دفتر میں موجود نہیں، ایسا کریں کہ آپ میرے دفتر میں بیٹھ جائیں، میں آپ کے پاس 11.00، 11.30 تک پہنچ جاؤں گا۔"
میں کیا کہتا، "ٹھیک ہے سر، خدا حافظ"
"اللہ حافظ۔" 

گفتگو شاید دو منٹ جاری رہی اور اب میں کراچی کی دھوپ میں کھڑا سوچ رہا تھا اب کیا کروں۔


وقت کی پابندی ایسا کون سا مشکل کام ہے، کون سا کوئی علمِ ریاضی کے فارملوں کو استعمال کرنا ہے، کون سا کوئی کشمیر فتح کرنا ہے۔ یہ کام تو میرے خیال میں امریکہ، اسرائیل اور بھارت کو تباہ کرنے سے بہت آسان ہے جس کا خواب پاکستانی قوم روز دیکھتے ہیں۔ لیکن شاید فارسی کا مقولہ صحیح ہے:
' مرد باید کار آسان مشو'

یعنی مرد ہرگز آسان کام نہیں کرتا۔ واقعی، وقت کی پابندی جیسے "آسان کام" پاکستانی قوم کو زیب نہیں دیتے!

دفتر کیونکہ پریس کلب کے پاس واقعہ ہے اس لیے کچھ وقت تو احتجاجی بینروں کو پڑھتے پڑھتے نکل گیا، اس قوم میں احتجاج بھی اب پرسکون انداز میں ہوتا ہے۔ زمیں پر کالیں سجے ہیں، سر کے اوپر ٹینٹ، اور بیچ میں پانچ دس آدمی جو کے چھوٹے جھوٹے ذاتی مفادات لے لیے جمع ہو گئے پیں۔ کسی وزیر کو اس کا وعدہ یاد دلوا رہیے پیں، کوئی نوکری کے لیے رو رہا ہے، کوئی نوکری پکی کرنے کے چکڑ میں ہے، وغیرہ۔کوئی ایک احتجاج بھی پاکستان کے بنیادی مسئلے -یعنی جاگیرداری- کے خلاف نظر نہیں آیا، یا جو روز معصوم لوگوں کا قتل عام ہو رہا، نہ اس پر کوئی احتجاج۔ اخلاقی اقدار بلکل ختم ہوچکے ہیں۔



کراچی پریس کلب کا بیرونی منظر


اس ڈرامہ کو دیکھنے کے بعد میں نے قریب ترین چائے کا ھوٹل تلاش کیا۔ تلاش کرنے میں کچھ وقت لگا، لکین پھر مل ہی گیا۔ چائے پی اور قریب ایک تاریخی عمارت نظر آئی۔ سوچا اندر جاکر دیکھوں، یہ کس کی عمارت ہے، قریب جاکر معلوم ہوا یہ سندھ کے جنگلی حیوانات کا مرکزی دفتر ہے! دفتر بیرون سے ہی سے تباہ حال لگ رہا تھا، معلوم ہوتا شاید جانوروں نے قرون وسطی میں اس پر حملہ کیا ہو۔ نہ دروازہ صحیح، نہ کوئی ہرا درخت نظر آئے، دفتر کے باہر کینٹین کی وجہ سے رش تھا، ورنہ اندر تو نہ کوئی آدم نا آدم زاد۔ اچھا یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ میں بھی ایک مرکزی دفتر آیا ہوں، اور یہ بھی ایک مرکزی دفتر ہے! ایک دفتر جانوروں کا ہے اور دوسرا سماجی جانوروں کا۔

(حواشی: ابھی 12.21 ہوئے ہیں اور کال آئی ہے کے ابھی حضرت مصروف ہیں، آدھا گنٹا اور لگے گا۔ تیسری دنیا کا تیسرے درجہ کا سماج۔ ایسی اوقات کی بے اوقاتی سے بے روزگاری لاکھ اچھی!!)

Thursday, March 8, 2012

سازشی مکالمہ


دو دوست آپس میں پاکستان کے مستقبل پر بات کررہے ہیں۔ اچانک سے ایک مکالمہ شروع ہوتا ہے:

پہلا دوست: یار! پاکستان کا کیا بنے گا؟
دوسرا دوست: (انتہائی یقین کے ساتھ) پاکستان جلد ایک عالمی طاقت بنے کو ہے! 

پہلا: لیکن چند لوگوں کا کہنا ہے کہ پاکستان ٹوٹ جائے گا؟
دوسرا: (انتہائی غصہ میں) معاذ اللہ!!! لا حول ولا!! توبہ کر! پاکستان قیامت تک کے لیے بنا ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت اس کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتی۔


پہلا: (تذبذب کا شکار) لیکن یار! مشرقی پاکستان بھی تو  بنگلادیش بن گیا۔ وہ قیامت تک کیوں نہیں رہا؟
دوسرا: ( چہرے پر ایک مسکان آجاتی ہے) دیکھ بیٹا! وہ بھارت و ہندو استعمار کی سازش تھی۔ بنگلادیش ہم سے الگ نہیں ہوا، بلکہ اب دو برادر مسلم ریاستیں وجود میں آگئی ہیں۔ ہم مل کر ہندو سامراج کو شکست دیں گے۔

پہلا: (کچھ سوچتے ہوئے) مگر آج تو بلوچستان سے بھی آزادی کے نعرے بلند ہورہے ہیں؟
دوسرا: نان سینس!! یہ سب بھارت کی سازش ہے۔

پہلا: لیکن بلوچستان کی تو سرحد انڈیا سے نہیں ملتی؟ پھر انڈیا کیسے مدد کررہا ہے؟
دوسرا: (انتہائی غصہ اور پھر انتہائی سکون) دیکھو! افغانستان میں اسرائیل اور امریکہ کا گٹھ جوڑ بن گیا ہے۔ وہ بھارت کو رستہ فراہم کررہے ہیں۔ معاملے کو سمجھو! ایک بہت بڑی سازش ہورہی ہے!!!

پہلا: کیا بھارتی فوج، کنٹینروں میں آرہی ہے یا ہمارے افغان بھائی ان کی مدد کررہے ہیں؟ کیا بلوچستان میں مکمل امن ہے؟
دوسرا: ( بس میں ہوتا لاوڈ اسپیکر پر اعلان کرتا)، سب جھوٹ!! افغانوں سے ہمارا تین ہزار سال کا رشتہ ہے! مجھے تو محمد غوری اور محمود غزنوی کے گھوڑوں کی ٹاپیں آج بھی سنائی دیتی ہیں، ہندوں کو آج بھی ۱۰۲۵ء کا واقعہ یاد ہے جب سومنات پر ہم نے حملہ کیا تھا! ہم اسلام کا قلعہ ہیں، کوئی طاقت ہم کو نہیں توڑ سکتی!

پہلا: کیا اس بار ہم کو ایٹم بم۔۔۔۔
دوسرا: (بات کاٹتے ہوئے) ایٹم بم کے خلاف امریکہ اور یورپ سازش کررہے ہیں، لیکن وہ محفوظ ہاتھوں میں ہے۔

پہلا: لیکن ہم تو ڈینگی نہیں روک سکے۔
دوسرا: دیکھو بات سمجھو! ڈینگی سی-آئی-اے کی سازش تھی۔ پاکستانیوں کو نیست و نابود کرنے کے لیے۔ یہ ایک سائنسی تجربہ تھا!

پہلا: اور جالی دوائیں؟
دوسرا: یہ عالمی سرمایہ داری نظام کی سازش ہے پاکستان کے خلاف۔

پہلا: اور جو سیلاب سے تباہی آئی تھی؟
دوسرا: (تھوڑی خاموشی کے بعد، آہستہ سے) سیلاب کی وجہ امریکہ کی ہارپ ٹیکنالوجی تھی، وہ قدرتی نہیں تھا۔ اس ہی طرح مظفرآباد میں زلزلہ بھی قدرتی نہیں تھا، اس کی وجہ بھی ساَئنسی تجربات تھے۔

پہلا:(بات بدلتے ہوئے) لیکن اب تو چین بھی ہم پر دہشت گردی کا الزام لگاتا ہے؟ سنکیانگ کے صوبے میں علیحدگی پسند تحریک کے حوالے سے۔
دوسرا: سب جھوٹ ہے! یہ امریکہ کی ایک اور سازش ہے۔ 

پہلا: اور کشمیری بھی پاکستان سے الحاق کے بجائے، مکمل آزادی کا خواہشمند ہیں۔
دوسرا: نان سینس!! کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ یہ سب عالمی میڈیا کا پروپگنڈہ ہے۔ میڈیا اسرائیل اور امریکہ کے ایجنڈے پر کام کرتا ہے۔ کشمیر ہمارا ہے اور رہے گا!

پہلا: لیکن کیا مشرقی پاکستان ہماری شہ رگ نہیں تھا؟
دوسرا: ( گھڑی کی طرف دیکھتا ہے) میرے مرشد کا پروگرام آنے والا ہے، مجھے جانا ہے۔

پہلا: مرشد کون؟
دوسرا: وہی جن کی میزبان ایک لڑکی ہوتی ہے اور وہ ہم کو کائنات کے سب سے بڑے فلسفی، جو دوبارہ کبھی پیدا نہیں ہوا اور نہ ہوسکتا ہے - علامہ اقبال - کا سبق دیتے ہیں۔ پاکستان کے خلاف پوری دنیا سازش کررہی ہے، تمھیں اس کا علم نہیں۔ آو! تم بھی ان سے فیض لو!!!

پہلا:  لیکن ابھی تو تم کہا رہے تھے کہ میڈیا اسرائیل اور امریکہ کے ایجنڈے پر کام کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔