Monday, April 16, 2012

ایک ممکنہ ملاقات کا احوال

یہ مضمون میں دوران انتظار لکھ رہا ہوں۔ انتظار ہے ایک صاحب کا جن سے مجھے ملاقات کرنی ہے۔ لیکن پاکستانی عادات و رسمات کے مطابق یہاں پر بھی وقت کی پابندی نہیں کی گئی۔ وہی 'میں نہ مانوں' والی عادت۔ حضرات نے مجھ سے فرمایا تھا کہ 10 بجے تشریف لائیے گا۔ میں نے غلطی سے وقت کی پابندی کا گناہ سرزد کردیا۔ میں ٹھیک 10 بجے پہنچ گیا۔ وہاں پہنچا کر پتہ چلا کہ حضور ابھی تشریف ہی نہیں لائے ہیں۔ دس منٹ انتظار کیا، اور پھر ان کو فون کردیا۔۔
میں نے کہا، "سلام علیکم"
"وعلیکم سلام"
"سر میں کمیل بات کر رہا ہوں، آپ نے مجھے 10   
بجے    آنے کو کہا تھا"
"جی کمیل صاحب، لیکن آپ نے confirm نہیں کیا"
"جی confirm نہیں کیا؟"
" جی، آپ کو چاہیے تھا کہ آپ مجھے دوبارہ کال کرتے کہ میں دس بجے آؤں گا"

یہ جملہ سن کر میں دل ہی دل میں اس 'جھگاڑ' پر ہنس پڑھا۔ بجائے یہ کہ وہ معذرت کرتے یا کوئی اور علت فراہم کرتے، حضرت نے سارا ملبہ میرے سر پر ہی ڈال دیا۔ اگرچہ حضرت ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں لیکن یورپ کی طرح پابندی وقت کی عادت ان میں پیدا نہ ہوئی۔

خیر میں نے ان کی یہ بات سنی انسنی کردی اور پوچھا، "اب ملاقات کب ہو سکتی ہے؟"

"میں تو ابھی مرکزی دفتر میں موجود نہیں، ایسا کریں کہ آپ میرے دفتر میں بیٹھ جائیں، میں آپ کے پاس 11.00، 11.30 تک پہنچ جاؤں گا۔"
میں کیا کہتا، "ٹھیک ہے سر، خدا حافظ"
"اللہ حافظ۔" 

گفتگو شاید دو منٹ جاری رہی اور اب میں کراچی کی دھوپ میں کھڑا سوچ رہا تھا اب کیا کروں۔


وقت کی پابندی ایسا کون سا مشکل کام ہے، کون سا کوئی علمِ ریاضی کے فارملوں کو استعمال کرنا ہے، کون سا کوئی کشمیر فتح کرنا ہے۔ یہ کام تو میرے خیال میں امریکہ، اسرائیل اور بھارت کو تباہ کرنے سے بہت آسان ہے جس کا خواب پاکستانی قوم روز دیکھتے ہیں۔ لیکن شاید فارسی کا مقولہ صحیح ہے:
' مرد باید کار آسان مشو'

یعنی مرد ہرگز آسان کام نہیں کرتا۔ واقعی، وقت کی پابندی جیسے "آسان کام" پاکستانی قوم کو زیب نہیں دیتے!

دفتر کیونکہ پریس کلب کے پاس واقعہ ہے اس لیے کچھ وقت تو احتجاجی بینروں کو پڑھتے پڑھتے نکل گیا، اس قوم میں احتجاج بھی اب پرسکون انداز میں ہوتا ہے۔ زمیں پر کالیں سجے ہیں، سر کے اوپر ٹینٹ، اور بیچ میں پانچ دس آدمی جو کے چھوٹے جھوٹے ذاتی مفادات لے لیے جمع ہو گئے پیں۔ کسی وزیر کو اس کا وعدہ یاد دلوا رہیے پیں، کوئی نوکری کے لیے رو رہا ہے، کوئی نوکری پکی کرنے کے چکڑ میں ہے، وغیرہ۔کوئی ایک احتجاج بھی پاکستان کے بنیادی مسئلے -یعنی جاگیرداری- کے خلاف نظر نہیں آیا، یا جو روز معصوم لوگوں کا قتل عام ہو رہا، نہ اس پر کوئی احتجاج۔ اخلاقی اقدار بلکل ختم ہوچکے ہیں۔



کراچی پریس کلب کا بیرونی منظر


اس ڈرامہ کو دیکھنے کے بعد میں نے قریب ترین چائے کا ھوٹل تلاش کیا۔ تلاش کرنے میں کچھ وقت لگا، لکین پھر مل ہی گیا۔ چائے پی اور قریب ایک تاریخی عمارت نظر آئی۔ سوچا اندر جاکر دیکھوں، یہ کس کی عمارت ہے، قریب جاکر معلوم ہوا یہ سندھ کے جنگلی حیوانات کا مرکزی دفتر ہے! دفتر بیرون سے ہی سے تباہ حال لگ رہا تھا، معلوم ہوتا شاید جانوروں نے قرون وسطی میں اس پر حملہ کیا ہو۔ نہ دروازہ صحیح، نہ کوئی ہرا درخت نظر آئے، دفتر کے باہر کینٹین کی وجہ سے رش تھا، ورنہ اندر تو نہ کوئی آدم نا آدم زاد۔ اچھا یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ میں بھی ایک مرکزی دفتر آیا ہوں، اور یہ بھی ایک مرکزی دفتر ہے! ایک دفتر جانوروں کا ہے اور دوسرا سماجی جانوروں کا۔

(حواشی: ابھی 12.21 ہوئے ہیں اور کال آئی ہے کے ابھی حضرت مصروف ہیں، آدھا گنٹا اور لگے گا۔ تیسری دنیا کا تیسرے درجہ کا سماج۔ ایسی اوقات کی بے اوقاتی سے بے روزگاری لاکھ اچھی!!)

No comments:

Post a Comment