ٹی وی پر ایک مولوی صاحب گلا پھاڑ پھاڑ کر کچھ کہہ رہے تھے۔ چہرے پر گہری سنجیدگی، ہاتھ کے اشعارے سے معلوم ہوتا جیسے ہٹلر کا پنرجنم ہوگیا ہو۔ کپڑے ایسے سفید کہ سننے والے کی آنکھیں ان کی طرف کھینچتی چلی جائیں۔ سر پر دستار سے عالم ہونے کا شائبہ ہوتا تھا، اور تقریر تو گویا غضب کی کررہے تھے:
"ان ظلم کی علامتوں، جن کو شریعت طاغوت کہتی ہے، نے ہمارے ہزاروں بھائیوں کو مارا ہے۔ ان کا راستہ رکھنا نہ صرف ہماری مذھبی ذمہ داری ہے بلکہ قومی غیرت کی بھی یہی آواز ہے! اقبال نے کہا تھا، نیل کے ساحل سے تا باخاک کاشغر، ہر جگہ اسلام کی حفاظت، میرے بھائیوں، ہماری ذمہ داری ہے۔ ہم کسی حال میں بھی ناٹو کا راستہ نہیں کھولنے دیں گے۔ ظالم کو ہماری قوت کا ابھی اندازہ نہیں۔۔۔۔۔۔"
اور معلوم نہیں حضرت جوش خطابت میں کیا کیا بولتے چلے گئے، لیکن لبِ لباب یہی تھا۔ ایک انجان دشمن، ایک خودساختہ طاقت کا گھمنڈ، اقبال کا ایک شعر، اور اس سب پر اسلام کا تڑکا۔ نعروں کی گونج، سماعتوں پر وجد طاری کردیتی۔ بالکل کسی فلم کا سین معلوم ہوتا، جس میں ادا کار خوب مشق کرکے آیا ہو۔
یہ سارا ڈرامہ ۱۸ سالہ سلیم اپنی ٹی - وی اسکرین پر دیکھ رہا تھا۔ اس کے والد، محمد عطااللہ نے نیا نیا ٹی-وی اپنی بیگم کے لیے خریدا تھا۔عطااللہ پشاور سے تعلق رکھتا تھا اور پیشے کے اعتبار سے ایک ٹرک ڈرائیور تھا۔ عام طور سے وہ گھر سے باہر ہی رہتا، لیکن سرکار کی طرف سے ناٹو پر حالیہ پابندی نے اس کو بےروزگار کردیا تھا۔ اس کے پاس کرنے کو کچھ زیادہ نہیں تھا۔ وہ روز اس امید میں ٹرک اڈے کا چکر لگاتا کہ شاید آج کوئی نویدِ سحر سنے کو ملے۔ لیکن وہ آج بھی ،روز کی طرح، گھر ناامید لوٹا۔ گھر کا انتظام یا تو قرض پر چلتا یا وہ دہاڑی پر کوئی چھوٹا موٹا کام کر لیتا۔ پیسوں کی کمی نے اسے چڑچڑا بھی بنا دیا تھا، اب اس نے دگنی سیگرٹ پینا شروع کردی تھی، اور غصہ میں بھی جلدی آجاتا تھا۔ بیوی سے لڑائی بھی عام بات ہوگئی تھی، اس کا واحد دوست، اس کا بیٹا، سلیم ہی تھا۔
محمد عطااللہ ابھی ابھی گھر میں داخل ہی ہوا تھا، جب اس نے مولوی صاحب کی زبان سے ادا کردہ کلمات سنے۔ ہونتوں کی لرزش تو سنائی نہ دی، پر آنکھوں میں شدید غم و غصہ تھا۔ شاید سلیم کی وجہ سے اس نے اپنے غصہ کو پی لیا۔
"ابا! یہ ظلم کی علامتیں مولوی صاحب کن کو کہہ رہے ہیں؟ جن لوگوں کی وجہ سے آپ کی نوکری چھٹی ہے؟"، سلیم نے معصومیت سے دریافت کیا۔
بیٹے کا سوال واقعی منطقی تھا، باپ کیا جواب دیتا، "نہیں بیٹا، یہ آمریکہ کو بول رہے ہیں، امریکہ کے ہزاروں فوجی، افغانستان میں مصروفِ جنگ ہیں۔ یہ ان کی بات کررہے ہیں۔"، عطااللہ نے جواب دیا
"ان ظلم کی علامتوں، جن کو شریعت طاغوت کہتی ہے، نے ہمارے ہزاروں بھائیوں کو مارا ہے۔ ان کا راستہ رکھنا نہ صرف ہماری مذھبی ذمہ داری ہے بلکہ قومی غیرت کی بھی یہی آواز ہے! اقبال نے کہا تھا، نیل کے ساحل سے تا باخاک کاشغر، ہر جگہ اسلام کی حفاظت، میرے بھائیوں، ہماری ذمہ داری ہے۔ ہم کسی حال میں بھی ناٹو کا راستہ نہیں کھولنے دیں گے۔ ظالم کو ہماری قوت کا ابھی اندازہ نہیں۔۔۔۔۔۔"
اور معلوم نہیں حضرت جوش خطابت میں کیا کیا بولتے چلے گئے، لیکن لبِ لباب یہی تھا۔ ایک انجان دشمن، ایک خودساختہ طاقت کا گھمنڈ، اقبال کا ایک شعر، اور اس سب پر اسلام کا تڑکا۔ نعروں کی گونج، سماعتوں پر وجد طاری کردیتی۔ بالکل کسی فلم کا سین معلوم ہوتا، جس میں ادا کار خوب مشق کرکے آیا ہو۔
یہ سارا ڈرامہ ۱۸ سالہ سلیم اپنی ٹی - وی اسکرین پر دیکھ رہا تھا۔ اس کے والد، محمد عطااللہ نے نیا نیا ٹی-وی اپنی بیگم کے لیے خریدا تھا۔عطااللہ پشاور سے تعلق رکھتا تھا اور پیشے کے اعتبار سے ایک ٹرک ڈرائیور تھا۔ عام طور سے وہ گھر سے باہر ہی رہتا، لیکن سرکار کی طرف سے ناٹو پر حالیہ پابندی نے اس کو بےروزگار کردیا تھا۔ اس کے پاس کرنے کو کچھ زیادہ نہیں تھا۔ وہ روز اس امید میں ٹرک اڈے کا چکر لگاتا کہ شاید آج کوئی نویدِ سحر سنے کو ملے۔ لیکن وہ آج بھی ،روز کی طرح، گھر ناامید لوٹا۔ گھر کا انتظام یا تو قرض پر چلتا یا وہ دہاڑی پر کوئی چھوٹا موٹا کام کر لیتا۔ پیسوں کی کمی نے اسے چڑچڑا بھی بنا دیا تھا، اب اس نے دگنی سیگرٹ پینا شروع کردی تھی، اور غصہ میں بھی جلدی آجاتا تھا۔ بیوی سے لڑائی بھی عام بات ہوگئی تھی، اس کا واحد دوست، اس کا بیٹا، سلیم ہی تھا۔
محمد عطااللہ ابھی ابھی گھر میں داخل ہی ہوا تھا، جب اس نے مولوی صاحب کی زبان سے ادا کردہ کلمات سنے۔ ہونتوں کی لرزش تو سنائی نہ دی، پر آنکھوں میں شدید غم و غصہ تھا۔ شاید سلیم کی وجہ سے اس نے اپنے غصہ کو پی لیا۔
"ابا! یہ ظلم کی علامتیں مولوی صاحب کن کو کہہ رہے ہیں؟ جن لوگوں کی وجہ سے آپ کی نوکری چھٹی ہے؟"، سلیم نے معصومیت سے دریافت کیا۔
بیٹے کا سوال واقعی منطقی تھا، باپ کیا جواب دیتا، "نہیں بیٹا، یہ آمریکہ کو بول رہے ہیں، امریکہ کے ہزاروں فوجی، افغانستان میں مصروفِ جنگ ہیں۔ یہ ان کی بات کررہے ہیں۔"، عطااللہ نے جواب دیا
"لیکن ابا! زیادہ بڑے دشمن تو یہ مولوی ہوئے، دیکھو نا، امّا کی طبعیت بھی خراب ہے، میں اسکول بھی نہیں جا پارہا، آپ بھی بے روزگار ہیں؟ اور یہ سب مولوی صاحب کی تقریر کی وجہ سے ہوا ہے۔ خود تو یہ ٹرک چلاتے نہیں، اور دوسروں کو بھی چلانے نہیں دیتے"، سلیم نے سریعاً جواب دیا۔
بیٹے کا استدلال کامل تھا، اور والد کے جذبات کی ترجمانی بھی کرتا تھا، لیکن معلوم نہیں عطااللہ کو کس طاقت نے مجبور کیا، وہ بول پڑا، "بیٹا، ان لوگوں نے ہمارے چوبیس فوجیوں کو شہید کیا تھا، یہ اس کے ردِعمل میں کیا گیا ہے۔ یہ قومی غیرت کا سوال ہے۔" یہ جملے بولتے ہوئے عطااللہ کا دل اس کی زبان کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔
مانگنے والے کی کون سے غیرت، غیرت مندی اور جذباتیت میں فرق ہوتا ہے۔ ایک جذباتی غیرت مند خودکشی کرنے کو ترجیح دیتا ہے، جبکہ ایک باہوشغیرت مند اپنے قدموں پر کھڑے ہونے کو ترجیح دیتا ہے۔ عطااللہ جانتا تھا کہ جو مولوی صاحب آج غیرت کا لیکچر دے رہے ہیں، وہ ۸۰ کی دہائی میں امریکہ کے قریبی یاروں میں سے تھے۔ آج غیرت کہاں سے یاد آگئی؟
لیکن یہ سب جانتے ہوئے بھی، عطااللہ نے اپنے بیٹے کو غیرت کا سبق سنا ہی دیا، حالا نکہ وہ اس کی حقیقت سے واقف تھا۔ ممکن ہے کے سماج کے بے پناہ جبر نے اس کو یہ کلمات ادا کرنے پر مجبور کیا ہو۔ واللہ و اعلم۔
"ابا! آپ نے ہی مجھے بتایا تھا کہ غیرت تو ایک کیفیت کا نام ہے، یہ کوئی ٹھوس چیز نہیں، جس کو دیکھا جاسکے۔ ان لوگوں کو کس نے اجازت دی ہے کہ یہ غیرت اور بے غیرتی کا تعین کریں؟ ان کا تو تاریخی وجود ہی آمریکہ- روس جنگ کے پسِ منظر میں ہوا ہے۔ یہ کون سی غیرت ہے کہ آدمی اپنے وجود سے ہی منحرف ہوجائے؟ اور اگر یہ واقعی فوج سے محبت کرتیں ہیں، تو ان پچیس فوجیوں کی شہادت پر کیوں احتجاج نہیں کرتے، جن کو مذھبی انتہا پسندوں نے شھید کیا تھا۔ ان لوگوں نے کل کے روز ہمارے شہر میں ایک مندر کو بھی نقصان پہنچایا۔ اس پر یہ اس قسم کی تقریریں کیوں نہیں کرتے؟"
باب نے کوئی جواب یہ دیا۔ شاید پسر کو پدر سے زیادہ معلومات تھی۔ محکوموں کی غیرت شاید صرف اتنی ہی ہوتی ہے کا ایک ۱۸ سال کے بچے کا جواب دینا بھی مشکل ہوجائے۔۔۔۔
لیکن یہ سب جانتے ہوئے بھی، عطااللہ نے اپنے بیٹے کو غیرت کا سبق سنا ہی دیا، حالا نکہ وہ اس کی حقیقت سے واقف تھا۔ ممکن ہے کے سماج کے بے پناہ جبر نے اس کو یہ کلمات ادا کرنے پر مجبور کیا ہو۔ واللہ و اعلم۔
"ابا! آپ نے ہی مجھے بتایا تھا کہ غیرت تو ایک کیفیت کا نام ہے، یہ کوئی ٹھوس چیز نہیں، جس کو دیکھا جاسکے۔ ان لوگوں کو کس نے اجازت دی ہے کہ یہ غیرت اور بے غیرتی کا تعین کریں؟ ان کا تو تاریخی وجود ہی آمریکہ- روس جنگ کے پسِ منظر میں ہوا ہے۔ یہ کون سی غیرت ہے کہ آدمی اپنے وجود سے ہی منحرف ہوجائے؟ اور اگر یہ واقعی فوج سے محبت کرتیں ہیں، تو ان پچیس فوجیوں کی شہادت پر کیوں احتجاج نہیں کرتے، جن کو مذھبی انتہا پسندوں نے شھید کیا تھا۔ ان لوگوں نے کل کے روز ہمارے شہر میں ایک مندر کو بھی نقصان پہنچایا۔ اس پر یہ اس قسم کی تقریریں کیوں نہیں کرتے؟"
باب نے کوئی جواب یہ دیا۔ شاید پسر کو پدر سے زیادہ معلومات تھی۔ محکوموں کی غیرت شاید صرف اتنی ہی ہوتی ہے کا ایک ۱۸ سال کے بچے کا جواب دینا بھی مشکل ہوجائے۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment