Tuesday, October 2, 2012

بلاگ اپ ڈیٹ نہ ہونے کی وجہ

بڑا بھائی آپ کو دیکھ رہا ہے۔ ذرائع:  آزاد انسان

لیکن پھر میں نے کہا، "چھڈو یار! اسامہ کا پتہ نہیں تھا، میرے بلاگ کا کس کو پتہ ہوگا"۔


پچھلے مہینے بلاگ پوسٹ کی تعداد صرف دو تھی۔ اس کی وجہ مضوعات کی کمی یا کاہلی نہیں تھی بلکہ ریاست کی طرف سے یوٹیوب پر لگائی پابندی تھی۔

اگر چہ پی-ٹی-اے نے پابندی صرف یوٹیوب پر لگی تھی، پر اس کے نتیجے میں اور بہت ساری اہم ویب سائٹ بھی بند ہوگئی تھیں۔ مثلاً، کئی لوگ گوگل ٹرانسلیٹر استعمال نہیں کر پارہے تھے، لوگوں کو اُن ویب سائٹ پر بھی دقت کا سامنا تھا جس پر گوگل کی کوئی نہ کوئی چیز استعمال ہوتی ہے۔ اس ہی وجہ سے میرا بلاگ بھی نہیں کھل رہا تھا۔


کئی دنوں تک تو مجھے لگا کہ میرا بلاگ بھی بند ہوگیا ہے۔ شاید جارج آرول کی شہرہ آفاق تصنیف 'بڑا بھائی' کا مجھ پر گہرا اثر ہوا ہے۔ میں سوچنے لگا کہ شاید ریاستی ادارے میرے بلاگ کو بند کرنا چاہتے تھے، شاید وہ ہر وقت مجھ پر نظر رکھ رہے ہوں، شاید خفیہ ادارے میرا بلاگ پڑھ رہے ہوں، شاید صدرِ پاکستان اور وزیرِ اعظم پاکستان کی گستاخی سرزد ہوئی ہو، شاید عزت مآب چیف جسٹس کو کوئی بات اچھی نہ لگی ہو، شاید فوجی کمانڈر نے اپنے آقاوں کو میرے بلاگ کی شکایت کردی ہو۔



لیکن پھر میں نے کہا، "چھڈو یار! اسامہ کا پتہ نہیں تھا، میرے بلاگ کا کس کو پتہ ہوگا۔" کروڑوں لوگوں میں سے ایک گم نام آواز کی کیا حیثیت۔ ویسے بھی آواز کی اہمیت ہمارے معاشرے میں ہے بھی کتنی؟ بقول افتخار عارف:۔

جب میر و مرزا کے سخن رائیگاں گئے
اک بے ہنر کی بات نہ سمجھی گئی تو کیا

لیکن، میرا تو یہ ماننا ہے کہ جدید تاریخ میں شور وہ واحد آلہ ہے جو تبدیلی کا باعث بنا ہے۔ یہ شور ہمیں روزا پارکر کی سیاہ فام امریکیوں کی جنگ کی صورت میں نظر آتا ہے، یہ ہمیں امیلین گولڈن کی شکل میں نظر آتا ہے، شور کے ذریعہ مہاہ آتما گاندی نے انگریزوں کا ناک میں دم کردیا تھا، شور کے ذریعے عرب نوجوانوں نے تیس تیس سال سے تخت پر سجھے آمروں کو زمیں بوس کیا، شور ہی نے مارٹن لوتھر کینگ کو امریکہ کا سب سے عظیم سماجی کارکن بنایا، بھٹو کا بھی واحد آلہ شور ہی تھا، ان کے پاس بندوق نہیں تھی جس سے سیاست پر قبضہ کیا جاسکے۔

مارکس جس طبقاتی کشمکش کی بات کرتا ہے، وہ بھی تو ایک طرح کا شور ہے۔ اس کشمکش میں طرح طرح کے خیالات ٹکراتے ہیں جو کہ تبدیلی کا باعث بنتا ہے۔ اس ہی طرح کی رائے ہسپانی فلسفی مائگل دے اونامونو کی بھی ہے جو کہتا ہے کہ "میرا کام حلچل پیدا کرنا ہے، میں ڈبل روٹی نہیں بیچتا، میں خمیر بیچتا ہوں"۔

میں سمجھتا ہوں کہ میرے بلاگ کا ایک مقصد شور مچانا بھی ہے، پر ایسا شور جس کی بنیاد ٹھوس دلیل اور منطق پر کھڑی ہو۔ ایسا شور جو دلیل کے بغیر ہوتا ہے اس کا انجام صرف تمسخر اور ذاتی یا سماجی نقصان کی صورت میں نکلتا ہے۔ ایسا شور تباہی کا باعث بنتا ہے اور سماج کو پیچھے کی طرف لے جاتا ہے۔ اس شور کی علامت وہ لوگ ہیں جو عوامی حکومتوں کا مذاق بناتے ہیں، جو مذہب کو سیاسی معاملات میں استعمال کرتے ہیں، جو چیخ چیخ کر تاریج کو مسخ کرتے ہیں، جو گلی بازاروں میں ایٹم بم کو قومی اساسہ قرار دیتے ہیں، یہ شور سماج کی تباہی کی دلیل ہے۔

شور زندگی کی علامت ہے،اور میرے بلاگ کی بھی۔ شور تومچتا رہے گا، چاہے "بڑے بھائی" کو یہ بات پسند آئے یا نہ آئے۔

No comments:

Post a Comment