Showing posts with label philosophy. Show all posts
Showing posts with label philosophy. Show all posts

Tuesday, January 20, 2015

The Writers' Disillusionment

The delusion of  writing is self-created.
Picture ref: Sewickley Public Library


Write for the sake of writing. No need to be logical. No need to be coherent. No need to make sense. No need to put in energy. No need to disguise thought behind archaic linguistic symbolism.


When I started blogging some years back, I made a resolution to myself. The resolution was to write five hundred words everyday. It went on for a long time, it was like an exercise for me. Everyday sitting in front of my computer, I used to think what I write about. The words came intuitively, and I wrote as the stream of thoughts dictated me to write. Writing, just like any other activity, requires consistency. Consistency is the keyword here. Psychological research conducted in the field of habits tell us that if an activity is continued for sixty-six days, then it becomes a habit.

There is a rhythm in a habit. The body started to ache, if the normal routine is not followed. But then what happen with me? Why couldn't I continue with my old habit? I guess the answer is that writing didn't become my habit. It was more a way to exhaust my feeling in words. The text I wrote was just a polemic that I couldn't speak out normally. It was more like shouting in a million march. No matter how high you speak, the voice only echos back to you. The louder the shout, the greater the disillusionment that my words are working magic. I don't care what people think about whatever I said in the last years. I don't want them to be heard or taken heed of.

During the process of writing , I forget that the important activity was NOT to make sense of the world around me. The big annals of history and philosophy are full of crazy ideas. It is upon the person, to make sense of them. But the writer misses the point, these annals of history are not made to make sense at all. It is just a disillusionment that we find connection in the process of understanding. The universe is not forced to subscribe to our laws. It doesn't make sense that weird human logic is able to comprehend a tiny part of the universe and then assumes that everything everywhere else is forced to pertain the same laws.

So now I think that, I would just write. Write for the sake of writing. No need to be logical. No need to be coherent. No need to make sense. No need to put in energy. No need to disguise thought behind archaic linguistic symbolism. No need to rethink or reword. It should the pure flow that matters. This will my logic of writing from now on.
   

Sunday, December 16, 2012

سازشی نظریات - حصہ دوم

البرٹ آئینستائن

سازشی نظریات بنیادی طور پر ذہنی بیماروں کی ایجاد ہوتے ہیں، جو جنتِ الحمقا میں رہنا چاہتے ہیں اور دوسروں کو بھی اُس میں رکھنا چاہتے ہیں۔ جس سماج میں بہتری نظر نہ آرہی وہ، وہاں ایسے سازشی لوگ برساتی کیڑوں کی طرح پیدا ہوتے ہیں اور وقتی سکون کا باعث بنتے ہیں۔

پچھلے بلاگ میں میں نے سازشی نظریے کی پہلی قسم کے بارے میں لکھا تھا۔ جس میں اس بات کا ذکر تھا کہ کس طرح خیالات اور الفاظ کو سادہ کرکہ چیزوں کی حقیقت کو تبدیل کردیا جاتا ہے، اور کس طرح تشریحات کو ریاستی مفادات کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔

ایسی سازشیں عام طور پر تاریخ کی کتابوں میں نظر آتی ہیں، اور عام آدمی تک کتابوں یا لیکچروں کے ذریعے پہنچتی ہیں۔ ان کتابوں کی وجہ سے ایک خاص قسم کا "مائنڈ سیٹ" (mindset) پیدا ہوتا ہے، جو ہر خیال کو سادہ تر کرنے کی جستجو میں لگ جاتا ہے۔ یہ طبقہ ہر واقعے اور خیال کیلئے ایک لفظ یا کوئی چھوٹا سا فقرا ترتیب دیتا ہے جو ہر موقعے پر اپنا جادو دکھاتا ہے۔

ایسا لگتا ہے جیسے پوری کائنات سمجھ میں آنے لگی ہے، ہر چیز اپنے اصل مقام پر ہے، اور بس کچھ ہی دیر میں مستقبل کے بارے میں پیشن گوئی شروع ہو جاتی ہے۔

اس دوسری قسم کے سازشی طریقے کا نام میں نے "رٹو طوطا" رکھا ہے، کیونکہ ہر مسئلہ کیلئے ان کے پاس صرف ایک ہی جواب ہوتا ہے جس کو وہ بار بار دھراتے چلے جاتے ہیں۔

رٹو طوطا

رٹو طوطا نظریہ آپ کو عام لوگوں میں سننے کو زیادہ ملے گا۔ یہ عام لوگ ہم میں سے ہی ہوتے ہیں، جو دانشوروں، مولویوں، میڈیا اور لیکچروں کی وجہ سے ذہنی صلاحیت کھو بیٹھتے ہیں۔ اس کا نتیجا یہ ہوتا ہے کہ قیاص کرنے کی صلاحیت مفقود ہو جاتی ہے، اور اس مراحلے پر وہ دانشواروں یا خطیب کی بات میں استعمال ہونے والے سب سے اہم یا مقبول لفظ کو ہر سوال کا جواب سمجھتے ہیں۔ اور اس ہی لفظ کو ہر مسئلے کی دلیل یا سبب مانتے ہیں۔

اس کی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ مثلاً، مندرجہ ذیل گفتگو:


۹/۱۱ کا واقعے کس نے کیا؟
"یہود و نصاری یا ہنود کی سازش ہے"
مہران بیس پر جملہ؟
"یہود و نصاری یا ہنود کی سازش ہے"
جی-ایج-کیو پر حملہ؟
"یہود و نصاری یا ہنود کی سازش ہے"
پاکستان میں دہشت گردی؟
"یہود و نصاری یا ہنود کی سازش ہے"
مسلمانوں کی علمی ابتری؟
"یہود و نصاری یا ہنود کی سازش ہے"
برما و غزہ میں حالات؟
"یہود و نصاری یا ہنود کی سازش ہے"
افغانستان میں شیعہ اور غیز-پختونوں کا قتل؟
"یہود و نصاری یا ہنود کی سازش ہے"
عراق میں روز حملے؟
"یہود و نصاری یا ہنود کی سازش ہے"
پولیو کے قطرے؟
"یہود و نصاری یا ہنود کی سازش ہے"
ڈرون حملے؟
"یہود و نصاری یا ہنود کی سازش ہے"
بھارت کو پسندیدہ ریاست قرار دینا؟
"یہود و نصاری یا ہنود کی سازش ہے"
سقوطِ ڈھاکہ؟
"یہود و نصاری یا ہنود کی سازش ہے"
ملال پر حملہ؟
"یہود و نصاری یا ہنود کی سازش ہے"
پشاور میں حملہ؟
"یہود و نصاری یا ہنود کی سازش ہے"
عائشہ عمر کی ٹی-شرٹ؟
"یہود و نصاری یا ہنود کی سازش ہے"


ایک اور مثال:


پاکستان میں کرپشن؟
"زردادی کی وجہ سے"
پاکستان میں بے روز گاری؟
"زردادی کی وجہ سے"
پاکستان میں دہشت گردی؟
"زردادی کی وجہ سے"
بجلی کی کمی؟
"زردادی کی وجہ سے"
آٹا مہنگا ہو گیا؟
"زردادی کی وجہ سے"
سی-این-جی کی کمی؟
"زردادی کی وجہ سے"
پاکستان میں بدحالی؟
"زردادی کی وجہ سے"


نظریے کا ایک مقصد مستقبل کا خاکہ تراشنا بھی ہوتا ہے، اس لئے یہ سازشی نظریہ مستقبل پر بھی طبع آزمائی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سازشی نظریہ کے اندر سے یا تو عمران خان پیدا ہوتا ہے یا کوئی جنت جیسی اسلامی ریاست۔



تبدیلی کا نشان؟
"صرف عمران خان"
کرپشن سے پاک پاکستان؟
"صرف عمران خان"
دہشت گردی سے پاک وطن؟
"صرف عمران خان"
روز گار سب کے لئے؟
"صرف عمران خان"



جب کوئی سماج دریا کو کوزے میں بند کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس سے مسائل کا تعین بہت مشکل ہوجاتا ہے۔

ضمناً، وہ حقیقی عوامل جو ہمارے سماج کی تباہی کی اصل وجہ ہیں، ان کو اپنا کام کرنے کی اور زیادہ مہلت مل جاتی ہے اور وہ اور زیادہ تباہی کرتے ہیں۔ اس وجہ سے عام آدمی اس سازشی نظریے میں اور زیادہ ڈوب جاتا ہے کیونکہ وہ حقیقت جاننے سے قاصر رہتا ہے۔ یہ ذہنی ابتری کا ایسا کنواں ہے جس میں ہر دوسرا قدم اور زیادہ ابتری کی طرف لے جاتا ہے۔

"رٹو طوطا" سازشی نظریے کا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ یہ ہر چیز ثابت کردیتا ہے۔ 

مشہور جرمن فلسفی کارل پوپر نے نظریے کی طاقت جانچنے کیلئے ایک پیمانا ایجاد کیا ہے جسکو اس نے 'فالسی فیکیشن' (falsification) کا نام دیا تھا۔ پوپر کے مطابق کسی نظریے کے صحیح ہونے کیلئے ضروری ہے کہ وہ کسی واقعے کے واقعہ نہ ہونے کو ثابت کرے۔

مثلاً، اگر ہم کسی ماہر نفسیات سے پوچھیں ہیں کہ "ایک انسان دوسرے انسان کو- جو کہ سمندر میں ڈوبنے والا ہے- اس کی جان بچانے کیلئے کودے گا یا نہیں؟"

 اگر وہ آدمی کود جاتا ہے تو ماہر نفسیات بولیں گے کہ " اس کا لاشعور اس کے شعور پر حاوی ہوگیا تھا"(repression)۔ اگر وہ نہیں کودتا تو اُن کا جواب ہو گا کہ "اس کی کوشش سماج میں مثبت طور پر تبدیل نہ ہوسکی۔" (sublimation).

اس ہی وجہ سے پوپر نفسیات کو سائنسی نظریہ نہیں بولتا۔

اس ہی نسبت سے سازشی نظریات کو 'سائنسی' کہنا ناممکن ہے۔ اگر ان سازشی لوگوں سے پوچھا جائے کہ کیا "کیا طالبان پاکستان کے ایٹم بم تک پہنچ سکتے ہیں؟" جو "ہاں" بولیں گے۔ وہ کہیں گے کہ، "اصل طالبان پاکستان کے دوست ہیں، باقی یہود کی سازش۔" جو نہیں بولیں گے، ان کی رائے ہوگی، "یہود و نصاری کبھی ہمارے اسلامی بم کےقریب نہیں آسکتے"۔اس لئے ان کی تھیوری سے سب کچھ ثابت ہو رہا ہے، اس لئے حقیقتاً کچھ بھی ثابت نہیں ہورہا۔

تیسری اہم بات اس "رٹو طوطا" نظریے پر یہ ہے کہ اس پر سائنسی تنقید ناممکن ہے۔ یہ لوگ ذرائع ابلاغ کو مانتے ہی نہیں ہیں۔ شاید ان کو معلومات الہام ہوتی ہیں، یا کوئی فرشتہ ان کو آکر بتاتا ہے۔ چند سازشی لوگ تو اپنی تھیوری پر بلکل ویسے ہی یقین کرتے ہیں جیسے علمِ غیب پر یقین۔ یہ لوگ فرماتے ہیں کہ جس طرح مذہب میں ہر سوال کا جواب ممکن نہیں، اس ہی طرح ان کے سازشی نظریہ میں خرابی کو صرف ایک وقتی مسئلہ سمجھا جائے، جو وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوجائے گا!

کمال کی بات یہ ہے کہ اگر ذرائع ابلاغ کی خبر ان کے حق میں ہو تو یہ لوگ آنکھ بند کرکہ اس پر یقین کر لیتے ہیں۔ اس سادگی پر کون نہ مر جائے اے خدا۔

سازشی نظریات بنیادی طور پر ذہنی بیماروں کی ایجاد ہوتے ہیں، جو جنتِ الحمقا میں رہنا چاہتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس میں رکھنا چاہتے ہیں۔ جس سماج میں بہتری نظر نہ آرہی وہ، وہاں ایسے سازشی لوگ برساتی کیڑوں کی طرح پیدا ہوتے ہیں اور وقتی سکون کا باعث بنتے ہیں۔

Monday, July 6, 2009

Islamism and Empire

یہ میرا پہلا انگریزی سے اردو ترجمہ ہے۔ اگرکوہی غلطی ہو تو براے مہربانی کمنٹ کردیے۔ شکریہ۔

یہ مضمون آصف بیت نے لکھا ہے۔

ایک بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔ یہ بحث ہے اسلام اور جدیدیت کے درمیان ہے اور اس میں دائیں جانب، بائیں جانب اور اسلام پسند تینوں ہی حصہ لے رہے ہیں۔ دائیں بازو کا خیال ہے کے اسلام ایک جدیدیت مخالف، جنونی نظام ہے اور 'آزاد دنیا' کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ ان کی نظر میں اسلام مطلق العانیات کی فلسفی بنیادیں فراہم کرتا ہے ، یہ کمیونیزم اور فاشیزم کا ساتھی ہے، جو آزاد سرمایہ دار دنیا کے لیئے ایک خطرہ ہے۔ اس ضمن میں 'تہذیبوں کے درمیان تصادم کا فلسفہ' حقیقت اختیار کر جاتا ہے۔ یعنی اسلام اور مغربی جدیدیت دو مخالف نظام ہیں۔


البتہ، بائیں بازو والے منقسم نظر آتے ہیں۔ چن کا خیال ہے اسلام ' فاشیزم کے مماثل' ایک نظام ہے۔ شوشلئستوں کا خیال ہے کے ہم چند اسلام پسندوں کو توڑ کر جدیدیت پسندی کے دائرے میں لا سکتے ہیں۔ دوسری طرف، چن بائیں بازو والے اسلام کو 'استعمار مخالف' طاقت مانتے ہیں۔ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کے اس نقتہ پر اسلام اور بائیں بازو میں اشترق ممکن ہے۔ مثلاَ، برئٹش لیبر پارٹی ، کا کہنا ہے کے 'اس دور میں یہ ہماری بیں لاقوامی ذمہ داری ہے کے ہم استعمار اور نسل پرستی کے خلاف مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہو۔' اس کے لیئے برئٹش لیبر پارٹی اور مسلم اسوسیئشن آف برٹن میں ایک سکیولر اشترق ضروری ہے۔ مسلم اسوسیئشن آف برٹن ایک قدامت پسند تنظیم ہے جو عورت مخالف جزبات رکھتی ہے۔ پر اس مسلئے کو
تہذیبی ' کے ضمن میں رد کر دیا جاتا ہے۔Relativism'

Saturday, July 4, 2009

Karl Marx - In Short

Karl Marx

Life
Marx is considered one of the greatest philosophers on the 19th century. Marx was born in an orthodox Jewish family, which had a long chain of rabbis on both side. Later Marx converted to Christianity to penetrate in the German Middle Class.

Work
Marx's work can be understood in an evolutionary model. In fact, Marx was so inspired by Darwin that he once said, "I would like to dedicate my book(Das Kapital) to Darwin, if only he answers in affirmative". I guess Darwin never answered!

Marx theory works on the principal which is know as 'Dialectical Materialism'. Marx was a Hegelian. The idea of dialectics was created by Hegel. (This idea is also present in the Greek philosophy but it is ascribed to Hegel). The idea of Materialism is taken from Fuerbach.

Dialectics is a method of argument. In this method a person presents a thesis, an anti-thesis and lastly a synthesis come out of them. To understand this, let's take an example. Person A says that due to industrialization, comfort levels are increasing, more time is available for leisure, and better working conditions are available compared to the pre-industrial revolution.

On the other hand, person B disagrees. He says that because of industrialization pollution has increased, which leads to more diseases; unemployment has increased as machine are replacing human, and life has become more like a robot as everything is mechanized. This is an anti-thesis.

Now we need to find out a middle way. This is called synthesis. Informally, when a thesis and anti-thesis collide a synthesis is created. This process is dynamic in nature. It never stops. This is because every synthesis would later became a thesis that will again collide with some anti-thesis and become a synthesis.

***

Marx is of the views that it is economies which derive a human acts not ideologies. It is through money that man buys shelter, clothing and food. A man must work in some sort of economic paradigm to get these basic necessities. According to Marx, and other materialists, it is the man's act of acquiring money which leads to the formation of law and society.

When we combine both of these ideas, i.e. Hegelian Dialectic and Materialism, we get 'dialectical materialism'. According to Marx, any social formation consists of two branches - infrastructure and super-infrastrucutre. The super-infrastructure provides the ideological drive to a society. It provide the framework according to which the infrastructure would gain its characteristics.

The infrastructure includes the ways of production. This might include technology and labour. The infrastructue basically leads to the creation of wealth and this is where dialectic comes into play.

According to Marx as there are two types of values(wealth) - capital value and labour value. As labour value move towards zero due to change in material conditions, a class war ignites as rich become richer and poor become poorer. This class war causes a problem in the infrastructure that consequently questions the super-infrastructure. The clash between the two can be considered as a collision of thesis and anti-thesis. This infact results in a synthesis which leads towards a new social formation.

Some Questions?

What's the purpose of life?
Who are you?
Is man the measure of truth?
What is the importance of meta-physics?
Which way is humanity heading?

These are some of the questions we are going to discuss on this blog.