Friday, December 14, 2012

سازشی نظریات - حصہ اول

البرٹ آئینستائن

اگر کوئی شخص سورج کو تارا بولے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن اگر وہ اسے چولھا بولنا شروع کردے تو سنے والے کو نہ سورج سمجھ آئے گا، اور نہ ہی چولھا۔

جرمن - امریکی ماہرِ طبیعات البرٹ آئینستائن نے کہا تھا: "چیزوں کو سادہ کرو، لیکن بلکل ہی سادہ نہ کردو"۔ اس کا مطلب یہ تھا کی خیالات کو آسان لفظوں میں بیان کرنا چاہیے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ خیال کو آسان بنانے کیلئے خیال ہی کو تور مروڑ دیا جائے۔ اس سے ہوتا یہ ہے کہ اصل خیال بھی متروک ہو جاتا ہے، اور جس خیال کو ہم حقیقی سمجھ رہے ہوتے ہیں، وہ صرف ہمارا ذہنی فریب ہوتا ہے۔ مثلاً، اگر کوئی شخص سورج کو تارا بولے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن اگر وہ اسے چولھا بولنا شروع کردے تو سنے والے کو نہ سورج سمجھ آئے گا، اور نہ ہی چولھا۔


دوسرا پہلوں اس قول کا یہ بھی ہے کہ اگر کوئی نظریہ ایک یا دو لفظوں میں ہر سوال کا جواب دے رہا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نظریہ "بہت زیادہ سادہ" ہوگیا ہے۔ اب یہ نظریہ سورج کو چولھا اور چولے کو سورج بولنا شروع ہو جائے گا۔ یہ اس ہی طرح ہے جس طرح بچپن میں میرے پاس ایک "سُپر مین" تھا جس کے سینے پر ایک بٹن لگا ہوا تھا۔ میں جب بھی بٹن دباتا تو اس میں سے آواز آتی:

"آئی آیم فرام کریمٹان! سُپر مین!" (I'm from Krypton! Super Man!s)



اس سپر مین کے پتلے نے صرف ایک ہی جملہ سیکھا تھا اور اس کی کل کائنات میں امر کی وجوہات، عقل کے منہاجات، اور حادثے کے اثرات کیلئے صرف ایک ہی جملہ تھا، جو میں نے مندرجہ بالا نوشت کیا ہے۔ سپر مین کی زندگی آسان تو بہت ہوگئی تھی، پر وہ اپنے گرد و نوا کے واقعات کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا۔



اگر میرے اس سپر مین کو کسی یونیورسٹی میں پروفیسر لگا دیا جائے تو شاگردوں کی زندگیاں آسان ہو جائے گی۔ ہر سوال کا جواب: "آئی آیم فرام کریمٹان! سپر مین!"۔



اگر ان دو پہلوں سے سماج کو دیکھا جائے تو آپ کو حیران کردینے والی مماثلت نظر آئیں گی۔اپنی آسانی کیلئے ہم پہلے پہلو کو "خیال و الفاظ سادہ کرنے" کا نام دیتے ہیں، اور دوسرے "رٹو طوطے" کا نام۔



خیال و الفاظ سادہ کرنا

یہ نظریہ آپ کو زیادہ تر تاریخ کی کتابوں میں ملے گا۔ سکیولزازم کو لادینیت کہنا، قائد اعظم کو مولوی میں تبدیل کرنے کی کوشش کرنا، تاریخ کا آغاز 711 (بعد از مسیح) سے کرنا، سانحہِ سقوطِ ڈھاکہ کو بھارتی سازش کہنا، 1980 کی افغان جنگ کو اپنی فتح گرداننا، وغیرہ۔



مورخوں نے ان واقعات کو بہت زیادہ سادہ کردیا ہے۔ اگر ان پیچیدہ واقعات کو "بہت زیادہ سادہ" نہ کیا جاتا تو ہم ان سے کچھ سیکھ بھی سکتے تھے۔


مثال کے طور پر اگر سقوطِ ڈھاکہ (1971) کا ملبہ انڈیا پر ڈالنے کے بجائے، حمید الرحمان رپورٹ کی پیچیدگیوں کو سادہ کرکہ ہمیں پڑھایا جاتا تو ہم قومی احتساب کے عمل سے گزر سکتے تھے۔ لیکن انڈیا پر سارا الزام لگا کر چیز سادی بھی ہوگئی اور "پڑوسی ہمارا دشمن" کی تھیوری بھی ثابت ہوگئی۔ لیکن نتجا کیا ہوا؟ سورج چولھا بنا گیا، اور چولھا سورج۔ مطلب، اب ہم نہ سورج کو پہچان سکتے ہیں اور نہ ہی چولھے کو۔ مستقبل میں ہم اور چولھے اور سورج پیدا کریں گے، اور آخر میں ہر چیز سورج یا چولھا بن جائے گی۔



ایک اور مثال لیتے ہیں تاریخِ پاکستان سے۔ سوال ہے: "تاریخ کب سے شروع کی جائے؟" ممتاز پاکستانی مورخ ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں کہ یہ ہماری یہاں بہت اہم سوال رہا ہے، اور تاریخ نویسوں نے ریاست کے "نظریہِ پاکستان" کی حمایت کرتے ہوئے تاریخ کو "بہت سادہ کردیا ہے"۔




پاکستان تاریخ کی کتابیں پڑھنے کے بعد لگتا ہے جیسے کہ برصغیر کی تاریخ 711 سے شروع ہوتی ہے۔ نہ ہم کو چندر گپتا کی تاریخ پڑھائی جاتی ہے، نہ یہ معلوم کے آسوکا کون تھا؟ نہ وائیت ہُنس، نہ اسکند کی آمد، نہ بت مت کی اس خطے میں تاریخ، نہ مہرگڑھ کی تہذیب کا کچھ معلوم، اور نہ دریاِ سندھ کی تہذیت کے مثبت پہلوں سے آشنائی۔ان موضوعات کو شامل نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اگر ان پہلوں کو تاریخ نویسی کا حصہ بنایا جائے گا تو برآمد ہونے والی تاریخ اتنی پیچیدہ ہوگی کے مورخوں کیلئے بھی مشکل ہو جائے گا کہ ایک "اسلام کیلئے بنی ریاست" کو کس طرح اس ماضی سے جوڑا جائے۔ مثال کے طور ہر، دریاِ سندھ کی تہذیب سے نکالے گئے ریکارڈز سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں قتل کا ایک بھی واقعہ درج نہیں کروایا گیا۔ "اسلامی پاکستان" کے روز نامچے اس کے برعکس، خونی صفحوں کے مانند ہیں۔


اگر دریاِ سندھ کی تہذیب کو 711 میں ممحد بن قاسم کے ساتھ جوڑ کر پڑھا جائے تو سندھ کی تہذیت زیادہ پُرامن نظر آتی ہے۔ یہ "اسلامی پاکستان" کے نظریے کے خلاف ہے، اس لئے مورخوں نے منظقی فیصلہ کرتے ہوئے تاریخ چھپانے کی کوشش کی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تاریخ تقریباً دو ہزار سال مختصر ہوگئی اور چولھا پھر سورج بنا گیا، اور سورج چولھا۔



میرے خیال میں مورخوں کو یہ حق تو مکمل طور پر حاصل ہے کہ وہ جس طرح چائیں تاریخ کی تشریح کریں، ویسے بھی تاریخ نام ہی صرف ذاتی تائثرات کا ہے۔ (ڈاکٹر مبارک علی)۔ لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ تاریخ مفاد پرست ٹولوں کے بجائے عام آدمی کی نظر سے لکھتے۔



اس ہی طرح 1980 میں افغانستان میں جنگ کرنے کی دلیل کو بے انتہاہ سادہ کرکے پیش کیا گیا۔ دلیل تھی:" کیونکہ روس کا اصل نشانہ بحرہِ عرب ہے، اس لئے ہمیں روس کو افغانستان میں روکنا ہوگا۔ فُل اسٹاپ۔" دو عالمی طاقتوں کے درمیان جنگ، دو مختلف فلسفہِ معاشیات کے میان جنگ اور دو مختلف براعظموں کے درمیان جنگ کو ہماری تاریخ کی کتابوں نے ۱۵ الفاظ کے بے اتنہاہ سادے جملے میں ضم کردیا۔ نتیجتاً، نہ بین الاقوامی جنگ کا صحیح پس منظر معلوم ہوسکا اور بعد میں ہونے والے خلفشار کا اندازہ کیا جاسکا۔ پھر سورج چولھا بن گیا اور چولھا سورج۔



جاری ہے۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment