Sunday, October 14, 2012

ایک نہتی لڑکی سے ڈر گئے

ملالہ یوسف زائی۔ ذرایع: thenews.com.pk

مجھے ان ذہنی بیمار لوگوں کو دلیل دینے کی کوئی ضرورت نہیں، کیونکہ ان کی اصل جگہ پاگل خانہ ہے، اور انہیں جلد از جلد ایک نفسیاتی ڈاکٹر کی ضرورت بھی ہے۔


ملالہ یوسف زائی پر ہونے والا حملہ، پاکستان میں دہشت گردی کی تاریخ کا سب سے تاریک باب ہے۔ ایک ۱۴ سالہ لڑکی کو سر اور گردن میں صرف اس لیے گولی ماری گئی کیونکہ وہ اپنے علاقے میں لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں آواز بلند کررہی تھی۔ وہ اعتدال پسندی کی تعلیم دے رہی تھی، اور ایک روشن پاکستان کا خواب دیکھا رہی تھی۔


لیکن کہا جاتا ہے کہ تاریکی میں بھی روشنی کی معمولی سے کرن ہوتی ہے۔ یہ کرن تاریکی پر حاوی ہوجاتی ہے۔ پاکستان میں پہلی بار لوگو اسلامی انتہاپسند تنظیم طالبان کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ پاکستان کے کئی گروپوں نے عوامی اجتماعوں میں لوگوں کو اس واقعہ کے خلاف متحرک کرنے کی کوشش کی ہے۔ آبادی کی ایک بہت بڑی تعداد اس واقعے کو نہ صرف انسانیت سوز کہتی ہے بلکہ اسلام کی مسخ شدہ تشریح کا شاخسانہ گردانتی ہے۔ اس طبقے میں میڈل کلاس لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد شامل ہے جو اپنی بچیوں کو اسکول بھیجتے ہیں اور بعد از آن جامعہ بھی۔ ملالہ کے واقعے نے پاکستان کی مہذب آبادی کے دل ہلاکر رکھ دیا ہے۔ اس واقعے سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ انتہاہ پسندوں کے نظریوں میں جان ختم ہوتی جارہی ہے، کیونکہ اگر یہ نظریہ مصبوط ہوتا ہے تو بچیوں اور بچوں کو مارنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ نہ ہی اسکولوں کو تباہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہے دہشت کے ذریعے اپنی بات منوانے کی۔ میرے کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ نظریہ طاقت کو استعمال نہیں کرتا، بلکہ نظریہ طاقت کو رزم گاہ میں استعمال کرتا ہے، ناکہ معصوموں کو خوف و ہراس میں رکھنے کیلئے۔


پاکستانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے اس جرم کی پرزور مذمت کی ہے۔ یہ ایک خوش آئین بات ہے۔ مگر ایک بیمار ذہنیت ایسی بھی ہے جس کو اس واقعے میں بھی کسی سازش کی 'خوشبو' آتی ہے۔ یہ طبقے ایک ایسی خودفریبی کی کھائی میں پھنسا ہوا ہے کہ جس سے نکلنا ان کے بس کی بات نہیں۔ یہ ایک ایسی کھائی ہے کہ جو خود ان کو اگلنا چاہتی ہے، پر یہ پھر بھی اس سے چپکے ہوئے ہیں۔ ان کے نزدیک ہر چیز ایک سازشی تھیوری کی وجہ سے ہورہا ہے، اور یہ لوگ اس تھیوری کو سمجھ گئے ہیں۔ جو لوگ اس تھیوری کو نہیں سمجھنا چاہتے، ان کیلئے یہ طبقہ 'غدار'،  'لاعلم'، اور 'ایجنٹ' کی پرانی اصطلاحات استعمال کرتا ہے۔ خیر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کے تالاب کا مینڈک دنیا کے بارے میں کیا رائے رکھتا ہے۔


اس کھائی میں پھنسے بیماروں کا فلسفہ کچھ یوں ہے: "ملالہ پر حملہ ایک امریکی سازش ہے۔ یہ حملہ طالبان نے نہیں کیا، بلکہ یہود و نصاری کی پاکستان اور اسلام کے خلاف چال ہے۔"


فلسفی بنے کی کوشش میں یہ ذہنی بیمار الٹی سیدھی چیزوں کی آپس میں ملانے سے بھی دریغ نہیں کرتے:
۱) "ملالہ پر حملے کو بنیاد بنا کر امریکہ پاکستان پر حملہ کرسکتا ہے"
۲) "امریکہ نے ڈرون کے حملے کو پسِ پوشت ڈال دیا"
۳) "قوم کی بیٹی آفیہ صدیقہ کیوں یاد نہیں آتی؟"
۴) "یہودی گستاخی کے مسئلے کو پسِ پوشت ڈالنا چاہتے ہیں"


آپ کو اس ہی قسم کی کئی باتیں پڑھنے کو ملیں گی۔ اس پر ہنسا جائے یہ رویا جائے، اس کا فیصلہ پڑھنے والا خود کرسکتا ہے۔ میں تو بس اتنا کہوں گا کہ:

جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفر
آدمی کوصاحبِ کردار ہونا چاہیے

مجھے ان ذہنی بیمار لوگوں کو دلیل دینے کی کوئی ضرورت نہیں، کیونکہ ان کی اصل جگہ پاگل خانہ ہے، اور انہیں جلد از جلد ایک نفسیاتی ڈاکٹر کی ضرورت بھی ہے۔

کیا واقعی ملالہ ہی ذمہ دار تھی امریکی ڈرون حملوں کی کہ ڈرون حملوں کا بدلہ ایک بچی سے لیا جائے؟ اگر ملالہ نے اوباما کو بڑا آدمی کہا تو کیا اس کو اپنا ہیرو چنے کی آزادی نہیں؟ کیا ضروری ہے کہ وہ بچی بھی ان ہی کو اپنا ہیرو سمجھے جن کو یہ دہشتگرد اپنا ہیرو سمجھتے ہیں؟

جب طالبان خود حملے کی ذمہ داری قبول کررہے ہیں، تو یہودی بیچ میں کہاں سے آگئے۔ ان کا سرکاری نمائندہ ٹی-وی پر 
فخریہ اس حملے کی ذمہ داری قبول کررہا ہے، اور اس بات کا اعلان بھی کررہا ہے کہ ایسے حملے اور ہوں گے۔

اور سب سے عجیب بات امریکہ اور پاکستان کے درمیان جنگ کی ہے۔ جس کا ہتھیار ہم خریدتے ہیں، جس کی امداد ہم لیتے ہیں، اور جو ہمارے بچوں کو پولیو کے قطرے پلاتا ہے، کیا واقعی اسکو ہم سے جنگ کرنے کی ضرورت ہے؟ وہ صرف امداد بند کردے تو یہ ملک خود بخود ہی کام کرنا چھوڑ دے گا۔ مالک کجا غلام کجا!

قوم کی بیٹی ملالہ ہے، جس نے اپنی زمین نہیں چھوڑی ، اور اپنی جان پر کھیل کر علم کی شمع منور کرنے کی کوشش کی۔ ان ذہنی بیماروں کو علم کی اہمیت کا کیا اندازہ۔ ملالہ نے ہزاروں بچیوں کو زندگی اپنے طریقے سے گزارنے کا حوصلہ فراہم کیا، اس نے دہشت کے خلاف آواز اٹھائی جو آج تک سیاستدان بھی آٹھانے سے ڈرتے ہیں۔


اگرچہ ان بیماروں میں آپ کو ڈاکٹر، انجئنیز، مذہبی پیسے سے تعلق رکھنے والے، معیشت سے تعلق رکھنے والے، اور دوسرے پیشوں سے تعلق رکھنے والے بھی نظر آئیں گے، پر یہ اس قوم کی سب سے بڑی بیماری ہیں۔ یہ لوگ نہ سوچ سکتے ہیں، اور نہ سوچنا چاہتے ہیں، اور شاید نہ کبھی سوچ پائیں گے۔ ان پر بلھے شاہ کا یہ کلام ججتا ہے: پڑھ پڑھ کتاباں علم دیاں توں نام رکھ لیا قاضی۔ باقی یہ بات بھی درست ہے کہ ذہنی بیمار تو کوئی بھی ہوسکتا ہے، چاہے پڑھا لکھا ہو یا غیر پڑھا لکھا۔

اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان میں انتہاہ پسند جماعتوں، مثلاً، طالبان، کے خلاف عوام کو بیدار کیا جائے۔ ملالہ سے پہلے یہ گروہ کئی اسکول تباہ کرچکے ہیں، اور ان کا کہنا ہے کی ایسے واقعات ہوتے رہیں گے۔ آج ہی ڈیرہ آدم خیل میں دہشگردی کے واقعہ میں ۱۶ لوگ جاں بحق ہوئے ہیں۔

یونہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق
 نہ اُن کی رسم نئی ہے، نہ اپنی ریت نئی
 یونہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول
 نہ اُن کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی

2 comments:

  1. Raising a voice.Great piece of work. Ferocious.You're taking her place in Karachi except its not about educating girls but their parents and the masses.

    ReplyDelete
    Replies
    1. Thank you... but you're exaggerating it!! ahhaaha

      Delete