Saturday, June 30, 2012

ریاست یا انسان؟

ایک چیز جس کی مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی وہ یہ ہے کہ ریاست کو ابدی حقیقت کیوں سمجھا جاتا ہے؟ ریاست کی سرحدوں کو الہامی زار کیوں تصّور کیا جاتا ہے؟ میں اکثر سوچتا ہوں کہ آیا ریاست اہم ہوتی ہے یا ریاست میں رہنے والے انسان اہم ہوتے ہیں؟ کیا ریاستی اداروں کا استحقاق اہمیت رکھتا ہے یا کسی غریب کی فاقہ کشی، کسی جوان کی ہلاکت یا خودکش حملے میں جاں بحق ہونے والے شہریوں کی اہمیت ریاستی اداروں کے استحقاق سے زیادہ ہوتی ہے؟ اور اس سے بڑھ کر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ استحقاق ان کو دیا کس نے ہے؟ کیا خدا نے دیا ہے؟ کیا کوئی ترک خلیفہ اپنی وصیت میں لکھ کر چل بسے تھے؟ کیا کوئی اقبال کا خضر راہ آیا اور ان ریاستی اداروں کو تمام فیصلے کرنے کا حق دے کر چلا گیا؟

اکثر ذہن میں یہ بات بھی آتی ہے کہ انسان تو اس خطہ میں ہزاروں سالوں سے زندہ ہے اور خوشی کے ساتھ رہ رہا ہے۔ کسی زمانے میں یہاں پر وادی سندھ کی تہذیب تھی، پھر گپتا آئے، ہریانکا، پھر شاید کُشن سلطنت، موریا سلطنت، ناندَا سلطنت، گرجارہ-پراتی ہارہ سلطنت، پھر امیہ سلطنت، پھر محمود غزنوی، محمد غوری، تغلق، خلجی، سکندر، لودھی، مغول، سلطنتِ انگلستان، اور پھر تقسیم ہند ، اس کے بعد تقسیم پاکستان اور پھر آج کا موجودہ پاکستان۔ ان عظیم سلطنتوں میں سے کوئی سلطنت نہیں بچی۔ کسی کا مندر رہ گیا، کسی کی مسجد، کسی کا محل تو کسی کا کارخانہ۔ کسی نے بڑے بڑے قبرستان دنیا والوں کے لیے چھوڑ دیے تو کسی نے بڑے بڑے باغات۔ مگر ان تمام سلطنتوں میں جو شے ساکت رہی وہ تھے یہاں کے رہنے والے لوگ۔ سلطنتیں آئی، سلطنتیں گئی، راجہ پیدا ہوئے اور راجہ مرگئے، ممالک بنے، ممالک ٹوٹے، کوئی بنگالی بن گیا، کوئی بھارتی اور کوئی پاکستانی۔ لیکن ان تمام سلطنتوں، القاب اور ممالک میں مقدس کیا تھا؟ سوائے اس خطے کے لوگوں کے کچھ بھی تو مقدس نہ تھا۔ پھر آج اس بکواس کی کیا وقّت رہ جاتی ہے کے فلاں ریاست قیامت تک رہ گی، اور فلاں ریاست ختم ہونے کو ہے۔ یا اُن مسخروں کو کیا کہا جائے جو کسی وقتی ریاست کو خدا کے الہامی منصوبے کا حصہ سمجھتے ہیں؟ شاید ایسے لوگوں کو معصوم سمجھ کر معاف کردینا چاہیے۔

اگر ہم اس بات کو دل سے مان لیں کے ریاست کوئی ٹھوس حقیقت نہیں، بلکہ کسی خطے میں رہنے والے مضبوط طبقہ کا عمومی لقب ریاست ہوتا ہے تو ہمارے کئی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ مثلاً، یہ کے ایک عام خوش فہمی یہ ہے کہ ایٹم بم نے پاکستان کو بچا لیا۔ سوال یہ ہے کے کون سا پاکستان اور کس کا پاکستان؟ بھارت اور پاکستان میں رہنے والے متوسط طبقوں کے مسائل تو ایک جیسے ہی ہیں۔ ان طبقوں کو ایک دوسرے سے کیا خطرہ؟ اور جب دونوں طرف کے عوام ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں تو پھر یہ ایٹم بم کس کے لیے؟ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ریاستوں نے یہ بم اپنی اپنی "ریاستوں" کو بچانے کے لیے بنایا ہے۔ یعنی اپنے اپنے مفاد پرست ٹولوں کو بچانے کے لیے۔

اگر ان تمام سوالوں کا صحیح تجزیہ کیا جائے تو ہم تین نتائج اخذ کرسکتے ہیں:
۱۔ ریاست کوئی جامد شے نہیں، بلکہ تاریخ میں یہ بنتی رہتی ہے اور ٹوٹتی رہتی ہے۔
۲۔ ریاست بنیادی طور پر ایک خاص طبقہ کی نمائیندگی کرتی ہے۔
۳۔ ریاست کوئی ابدی شے نہیں، بلکہ اُس زمین پر رہنے والا انسان ایک ابدی شے ہے۔

اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اگر ریاستِ پاکستان، یہاں بسنے والے انسانوں ( یا جن کو آج کل پاکستانی کہا جاتا ہے) کی خفاظت اور خدمت نہیں کر پارہی، تو وہ اس کام کا ٹھیکا کسی اور کو دے دے۔ کیونکہ ریاست ہو یا نہ ہو، لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کے انسان یہاں ہمشہ آباد رہے ہیں اور رہے گیں۔

No comments:

Post a Comment