Monday, June 4, 2012

قصہ چار مبینہ افیمچیوں کا

پورانا واقعہ ہے کہ چار افیمچی ایک صحرا سے گزر رہے تھے۔ دھوپ کڑاکے کی تھی، تپش سے سامنے کا منظر بےانتہا دھندلا ہوگیا تھا۔ اتنے میں انھیں دور ایک مسجد نظر آئی۔

"یار آیاز بابا، وہ دیکھو، وہ دیکھو، بچاری مسجد، کتنی دھوپ میں کھڑی ہے۔ مجھے افسوس ہورہا ہے"، روتی ہوئی آواز میں زید نے بولا۔ زید عمر میں سب سے بڑا تھا اور نشے کا استعمال بھی سب سے زیادہ کرتا تھا۔ ایک شاعر کا نام بار بار لیتا اور اشعار اس طرح پڑھتا، مانند سکند اعظم کی فوج کا سپاہ سالار ہو۔

"ہاں چچا زید،تو صحیح کہا رہا ہے، چل یار کچھ کرتے ہیں"، عمران نے زید سے کہا۔ عمران سے سارے دوست ڈرتے تھے۔ اس کے ہاتھ میں ہروقت بلا رہتا تھا، اور اگر اس کی سٹی گم جائے تو وہ بلا کسی کو بھی مار دیتا تھا۔ لیکن صحرا کی دھوپ نے اس کو نڈھال کردیا تھا۔ اب وہ بلے کو سر پر رکھتا، جو سائے کا کام کرتا تھا۔

چوتھے افیمچی کو سب نوری بابا کہتے تھے۔ معلوم نہیں کیوں، شکل سے انتہائی شاطر طبعیت کا مالک تھا اور کم گو بھی۔ پہلی نظر میں افیمچی ہونے کا گمان بھی محال تھا۔ لمبا قد اور صاف چہرہ مانو ابھی کشمیر کی کسی وادی سے آیا ہو۔ چہرے پر گرمی اور تپش کے کوئی اثرات نظر نہیں آتے تھے۔

چاروں افیمچیوں نے اپنا رُخ مسجد کی طرف کیا اور اس طرف چل پڑے۔ مسجد کے پاس پہنچے تو سب اس خیال میں پڑگئے کہ اب اس مسجد کو دھوپ سے کیسے بچائیں۔ آپس میں پارلیمانی مشاورت شروع ہوئی، پھر گالی گلوچ، اس کے بعد بات ہاتھا پائی تک جاپہنچی۔

"ہم سورج کو آخری وارننگ (warning) دے رہے ہیں، اس زمین سے ہٹ جاو، میں کہتا ہوں اس زمین سے ہٹ جا، ورنہ اپنے انجام کیلیے تیار رہ"، زید نے بے انتہا غصے سے سورج کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ اس کی ٹوپی بھی سر سے گرگئی۔
"آخری وارننگ ہے، ورنہ اپنے شاہینوں کو بھیجتا ہوں تیرے پاس"، ٹوپی اٹھاتے ہوئے، زید زور سے بولا۔

"ابے سورج ۹۰ منٹ میں ہٹ جا! صرف ۹۰ منٹ! میرے ایک بلے سے دو سورج آوٹ ہوجاتے ہیں۔ تُو تو صرف لیمو جتنا ہے۔ میرا بلا دیکھ اور اپنا قدر۔"، عمران نے بلا سورج کے برابر رکھتے ہوئے کہا۔

"تیرے بلے کا مقابلہ میرا شاہین کرے گا"، زید نے مسکین آیاز کی طرف آشارہ کرتے ہوئے کہا۔

"تیرا شاہین؟!، یہ تو میرا سونامی ہے"، عمران بلا ہلاتے ہوئے بولا۔

"دیکھو عمران، ہم آپ کو بھی وارننگ دے رہے ہیں، ان شاہینوں کو آیندہ سونامی مت کہنا، ہم تمھیں بھی نیست و نابود کردیں گے"، زید نے یہ جملہ ایک سانس ہی میں بولا۔

"یہ میرا سونامی ہے!!!!"، عمران نے بولتے ہوئے بلا زید کی طرف دے مارا، لیکن زید نے جلدی سے بائیں جانب چھلانگ مار لی۔ بلا لگا بھی تو مسکین آیاز کی دائیں ٹانگ پر جو پہلے سے خراب تھی۔

آیاز درد کی شدد سے چیخ پڑا۔ بچارا بہت معصوم تھا۔ تھوڑی سی افیم کے لیے عمران اور زید کی لڑائی میں چوٹ کھاتا۔ زید آیاز کو ایک جنگلی پرندے سے تشبیہ دیتا، جبکہ عمران آیار کو قاتل اور سمندری عذاب یعنی سونامی سے ملاتا۔ حقیقت یہ تھی کہ آیاز افیم کھا کھا کر اتنا کمزور ہوگیا تھا کہ وہ باآسانی فریب کھا جاتا۔ اور فریب کھانے کے سوا اس کے پاس تھا کیا؟ صرف افیم، اور افیم کے مالک بھی زید، عمران اور نوری بابا تھے۔ اس غریب کی کیا اوقات کہ خود افیم خرید کر چکھ سکے۔ بچارے آیاز پر بہت افسوس ہوتا تھا، افیم نہ ہونے کو وجہ سے خودسوزی بھی کرتا اور کبھی کبھی خودکُشی کی کوشش بھی، لیکن اس کی خودکُشی کی کوشش کو عمران اور زید کی افیم ناکام بنادیتی۔ فارسی کی مشہور کہاوت ہے، چہل سال عمرِ عزیزت گزشت، لیکن مزاجِ طفلی از حال طفلی نگشت' (یعنی کہ زندگی کہ چالیس سال تو گزر گئے لیکن وہ پرانی بچوں والی عادت نہیں گئی)۔ آیاز افیم کھانے کا عادی ہوچکا تھا، یہ عادت چہل ہزار سال میں بھی چلی جائے تو کمال ہوگا۔

بہرحال، زید و عمران آیاز کی طرف بھاگے اور اسے دلاسا دینے لگے۔ حسبِ معمول آیاز نے رونا ڈھونا بند کردیااور خوش ہوگیا۔ چلو جھوٹا دلاسا ہی صحیح!!

یہ سارا کھیل نوری بابا دور سے بیٹھا دیکھ رہا تھا۔ معلوم نہیں اس کو افیم کی عادت کس نے لگا دی، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ساروں کو افیم کی عادت اس ہی نے لگائی ہو۔ جب افیمچیوں کے جذبات کچھ ٹھنڈے ہوئے، تو پھر نوری بابا کھڑا ہوا۔

"بھائیوں، ہم یہاں مسجد سے دھوپ ہٹانے کے لیے آئے تھے، لیکن تم لوگ تو آپس میں ہی لڑپڑے"، یہ جلمہ نوری بابا کا تکیہ کلام تھا، کہا جاتا ہے کہ تین نسلوں سے یہ جملہ معمولی معمولی رّد و بدل کے ساتھ ایسے ہی ادا کیا جارہا ہے۔

"اب اس فقیر کی بھی سنو"، اُس نے سنجیدگی کے ساتھ کہا۔ "عمران صحیح کہتا ہے، یہ دھوپ ۹۰ منٹ میں ہٹ سکتی ہے۔ ابھی ایک بج رہا ہے، لیکن ڈھائی بجے تک یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے، ہمیں صرف اس مسجد کو دھکا دینا ہے، اور یہ مسجد سائے میں چلی جائے گی۔ وہ دیکھو! وہاں ایک درخت ہے"، نوری بابا نے درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔

"ہاں نوری! تیرا خیال بہت اچھا ہے۔ ہم سب مل کر اس مسجد کو دھکا لگاتے ہیں تاکہ یہ مسجد درخت کے نیچے آجائے"، عمران نے زید کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔

"صحیح ہے بھائیوں، میں درخت کے پاس جاتا ہوں، اور جیسے جیسے مسجد درخت کے قریب آتی رہے گی، میں تم کو بتاتا رہوں گا"، یہ کہتے ہوئے نوری بابا درخت کے سائے میں جابیٹھا، جبکہ عمران، زید اور آیاز نے دھکا دینا شروع کردیا۔

"زور لگا کر عالٰی شاہ، زور لگا کر عالٰی شاہ، زور لگا کر عالٰی شاہ"، نوری بابا نعرے لگانے لگا۔

جیسے جیسے سورج نیچے ہوتا گیا، درخت کا سایہ لمبا ہوتا چلا گیا، مانو جیسے مسجد دھکے کی وجہ سے سائے میں جارہی ہو۔ ایک گھنٹا گزرا، پھر دو گھنٹے، پھر جب چار بجے تو آیاز بول پڑا، "یہ مسجد سائے میں کب آئے گی؟"

اس پر زید نے جواباً کہا، "احمق! تو میرا شاہین ہے، تیرے سامنے جہاں اور بھی ہیں۔ صرف دو تین گھنٹے دھکا لگانے میں تیری جان نکل گئی؟"۔ پھر فرمایا، "میں نوری کے پاس جارہا ہوں، اس کا حال معلوم کرنے، ابھی واپس آتا ہوں۔" یہ کہتے ہوئے وہ چل نکلا۔

ابھی آدھا گھنٹا بھی نہ گزرا ہوگا کہ عمران بول پڑا، "میں زید کو دیکھ کر آتا ہوں، دروغ گو ہے!" اس پر آیاز نے بولا، "عمران کچھ پانی لیتے آنا، میرا پانی ختم ہوگیا ہے۔" عمران نے گھورتے ہوئے دیکھا اور بولا، "پانی ختم ہو گیا ہے؟ احمق، تم تو سونامی ہو، تم تو خود ہی پانی ہو، پانی پانی کرگئی مجھ کو تیری یہ بات۔"، یہ جملہ کہتا ہوا عمران بھی نوری بابا کے پاس چلا گیا۔

اب شاید چھ بج چکے تھے اور اندھیرا ہونے کو تھا۔ مسجد خود بخود سائے میں آگئی تھی۔ آیاز کی حالت ایسی ہوگئی تھی، جیسے وہ چند لمحوں میں مر جائے گا، لیکن پھر نوری بابا نے آیاز کو کچھ پانی دے دیا اور اسکی جان میں جان آئی۔ اس کامیابی پر عمران اور زید ایسے خوش ہورہے تھے جیسے یہ ان ہی کی کاوش کا نتیجہ ہو، حالا کہ وہ تو دوگھنٹے بعد ہی بھاگ نکلے تھے۔ منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔

"شاباش میرے شاہین"، "شاباش میرے سونامی"، کے نعرے آیاز کو عطا کئے جارہے تھے۔ نوری بابا، حسبِ معمول پھر تماشہ دیکھنے لگا، اور قریب موجود نخلستان میں چلا گیا۔ جب آیاز دھکا دے رہا تھا، تو زید اور عمران اس ہی نخلستان میں آرام کررہے تھے۔ معلوم نہیں دماغ میں نوری کیا سوچ رہا ہو۔ شاید وہ یہ سوچ رہا ہو کہ تاریک زمین پر تاریکی سے بننے والے سائے اور حقیقی سائے میں کیا فرق ہوتا ہے۔ جب کوئی چیز تاریکی کی وجہ سے اندھیرے میں چلی جائے پھر وہ روشنی فراہم نہیں کرسکتی۔ اندھیری زمین پر ہر چیز اندھیری ہوتی ہے، تاریکی میں روشنی کُجا حکمت کُجا!

لیکن کیا نوری یہ سب کچھ سوچ سکتا ہے؟ وہ تو افیمچی ہے؟ کیا واقعی وہ افیم چہ ہے؟! میرے خیال میں واحد افیمچی آیاز ہے، باقی صرف افیمچی ہونے کا بہانہ کررہے ہیں۔۔۔



حواشی
>نوری بابا کا استعارہ جنرل ضیاء اور تمام عوامی حکومتوں پر قبضہ کرنے والے جنرلوں کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔
>آیاز پاکستان کے عوام ہے۔
>مسجد کا استعارہ کوہستان کے اس فتویٰ کے لیے ہے۔

No comments:

Post a Comment