Monday, December 17, 2012

Translations from Sohrab Sepehri's poetry

Sohrab Sepehri. Source: Wikipedia Persian


A few day ago I found Sohrab Sepehri's (1928-1980) facebook page. He is a popular Persian poet, well known in Iran.

Personally for me, his poetry is sublime and easy to understand. I thought it's a good idea to translate some of his prose work.


مرد بقال از من پرسید
چند من خربزه می خواهی؟
من از او پرسیدم
دل خوش سیری چند؟


The trader questioned,
"How many melons do you want?"
I questioned,
"How many will make my heart full?"

***

زندگی ، سبزترین آیه ، در اندیشه برگ
زندگی، خاطر دریایی یک قطره، در آرامش رود
زندگی، حس شکوفایی یک مزرعه، در باور بذر
زندگی، باور دریاست در اندیشه ماهی، در تنگ
زندگی، ترجمه روشن خاک است، در آیینه عشق
زندگی، فهم نفهمیدن هاست

Life - the greenest leaf in the [tree of] thought
Life - the thought of a drop in a calm river
Life - a sowed thought in a beautiful farm 
Life - What a fish thinks of ocean when death nears
Life - a metamorphosis of [dark] clay into light
LIFE - KNOWLEGE THAT CAN'T BE KNOW

***

صدا كن مرا صدا كن مرا
صداي تو خوب است‌.
صداي تو سبزينه آن گياه عجيبي است
كه در انتهاي صميميت حزن مي رويد.
در ابعاد اين عصر خاموش

Call Me! Call Me!
Your Call is (the most) beautiful.
Your call is of an unknown plant
that shakes in solemn intimacy.
(but) it can't be heard in this (physical) world

***


پشت هيچستانم‌.
پشت هيچستان جايي است‌.
پشت هيچستان رگ هاي هوا، پر قاصدهايي است
كه خبر مي آرند، از گل واشده دورترين بوته خاك‌.


No-where is behind me.
Behind No-where is a place.
Behind No-where, the weather is uncanny.
(this) news has come from the most beautiful flower present at the furthest edge


***


به سراغ من اگر مي آييد،
نرم و آهسته بياييد، مبادا كه ترك بردارد
چيني نازك تنهايي من‌.

If you come to my dwelling
Come quietly and calmly; 
So that my intricate silence
doesn't shun asunder.

Sunday, December 16, 2012

سازشی نظریات - حصہ دوم

البرٹ آئینستائن

سازشی نظریات بنیادی طور پر ذہنی بیماروں کی ایجاد ہوتے ہیں، جو جنتِ الحمقا میں رہنا چاہتے ہیں اور دوسروں کو بھی اُس میں رکھنا چاہتے ہیں۔ جس سماج میں بہتری نظر نہ آرہی وہ، وہاں ایسے سازشی لوگ برساتی کیڑوں کی طرح پیدا ہوتے ہیں اور وقتی سکون کا باعث بنتے ہیں۔

پچھلے بلاگ میں میں نے سازشی نظریے کی پہلی قسم کے بارے میں لکھا تھا۔ جس میں اس بات کا ذکر تھا کہ کس طرح خیالات اور الفاظ کو سادہ کرکہ چیزوں کی حقیقت کو تبدیل کردیا جاتا ہے، اور کس طرح تشریحات کو ریاستی مفادات کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔

ایسی سازشیں عام طور پر تاریخ کی کتابوں میں نظر آتی ہیں، اور عام آدمی تک کتابوں یا لیکچروں کے ذریعے پہنچتی ہیں۔ ان کتابوں کی وجہ سے ایک خاص قسم کا "مائنڈ سیٹ" (mindset) پیدا ہوتا ہے، جو ہر خیال کو سادہ تر کرنے کی جستجو میں لگ جاتا ہے۔ یہ طبقہ ہر واقعے اور خیال کیلئے ایک لفظ یا کوئی چھوٹا سا فقرا ترتیب دیتا ہے جو ہر موقعے پر اپنا جادو دکھاتا ہے۔

ایسا لگتا ہے جیسے پوری کائنات سمجھ میں آنے لگی ہے، ہر چیز اپنے اصل مقام پر ہے، اور بس کچھ ہی دیر میں مستقبل کے بارے میں پیشن گوئی شروع ہو جاتی ہے۔

اس دوسری قسم کے سازشی طریقے کا نام میں نے "رٹو طوطا" رکھا ہے، کیونکہ ہر مسئلہ کیلئے ان کے پاس صرف ایک ہی جواب ہوتا ہے جس کو وہ بار بار دھراتے چلے جاتے ہیں۔

رٹو طوطا

رٹو طوطا نظریہ آپ کو عام لوگوں میں سننے کو زیادہ ملے گا۔ یہ عام لوگ ہم میں سے ہی ہوتے ہیں، جو دانشوروں، مولویوں، میڈیا اور لیکچروں کی وجہ سے ذہنی صلاحیت کھو بیٹھتے ہیں۔ اس کا نتیجا یہ ہوتا ہے کہ قیاص کرنے کی صلاحیت مفقود ہو جاتی ہے، اور اس مراحلے پر وہ دانشواروں یا خطیب کی بات میں استعمال ہونے والے سب سے اہم یا مقبول لفظ کو ہر سوال کا جواب سمجھتے ہیں۔ اور اس ہی لفظ کو ہر مسئلے کی دلیل یا سبب مانتے ہیں۔

اس کی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ مثلاً، مندرجہ ذیل گفتگو:


۹/۱۱ کا واقعے کس نے کیا؟
"یہود و نصاری یا ہنود کی سازش ہے"
مہران بیس پر جملہ؟
"یہود و نصاری یا ہنود کی سازش ہے"
جی-ایج-کیو پر حملہ؟
"یہود و نصاری یا ہنود کی سازش ہے"
پاکستان میں دہشت گردی؟
"یہود و نصاری یا ہنود کی سازش ہے"
مسلمانوں کی علمی ابتری؟
"یہود و نصاری یا ہنود کی سازش ہے"
برما و غزہ میں حالات؟
"یہود و نصاری یا ہنود کی سازش ہے"
افغانستان میں شیعہ اور غیز-پختونوں کا قتل؟
"یہود و نصاری یا ہنود کی سازش ہے"
عراق میں روز حملے؟
"یہود و نصاری یا ہنود کی سازش ہے"
پولیو کے قطرے؟
"یہود و نصاری یا ہنود کی سازش ہے"
ڈرون حملے؟
"یہود و نصاری یا ہنود کی سازش ہے"
بھارت کو پسندیدہ ریاست قرار دینا؟
"یہود و نصاری یا ہنود کی سازش ہے"
سقوطِ ڈھاکہ؟
"یہود و نصاری یا ہنود کی سازش ہے"
ملال پر حملہ؟
"یہود و نصاری یا ہنود کی سازش ہے"
پشاور میں حملہ؟
"یہود و نصاری یا ہنود کی سازش ہے"
عائشہ عمر کی ٹی-شرٹ؟
"یہود و نصاری یا ہنود کی سازش ہے"


ایک اور مثال:


پاکستان میں کرپشن؟
"زردادی کی وجہ سے"
پاکستان میں بے روز گاری؟
"زردادی کی وجہ سے"
پاکستان میں دہشت گردی؟
"زردادی کی وجہ سے"
بجلی کی کمی؟
"زردادی کی وجہ سے"
آٹا مہنگا ہو گیا؟
"زردادی کی وجہ سے"
سی-این-جی کی کمی؟
"زردادی کی وجہ سے"
پاکستان میں بدحالی؟
"زردادی کی وجہ سے"


نظریے کا ایک مقصد مستقبل کا خاکہ تراشنا بھی ہوتا ہے، اس لئے یہ سازشی نظریہ مستقبل پر بھی طبع آزمائی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سازشی نظریہ کے اندر سے یا تو عمران خان پیدا ہوتا ہے یا کوئی جنت جیسی اسلامی ریاست۔



تبدیلی کا نشان؟
"صرف عمران خان"
کرپشن سے پاک پاکستان؟
"صرف عمران خان"
دہشت گردی سے پاک وطن؟
"صرف عمران خان"
روز گار سب کے لئے؟
"صرف عمران خان"



جب کوئی سماج دریا کو کوزے میں بند کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس سے مسائل کا تعین بہت مشکل ہوجاتا ہے۔

ضمناً، وہ حقیقی عوامل جو ہمارے سماج کی تباہی کی اصل وجہ ہیں، ان کو اپنا کام کرنے کی اور زیادہ مہلت مل جاتی ہے اور وہ اور زیادہ تباہی کرتے ہیں۔ اس وجہ سے عام آدمی اس سازشی نظریے میں اور زیادہ ڈوب جاتا ہے کیونکہ وہ حقیقت جاننے سے قاصر رہتا ہے۔ یہ ذہنی ابتری کا ایسا کنواں ہے جس میں ہر دوسرا قدم اور زیادہ ابتری کی طرف لے جاتا ہے۔

"رٹو طوطا" سازشی نظریے کا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ یہ ہر چیز ثابت کردیتا ہے۔ 

مشہور جرمن فلسفی کارل پوپر نے نظریے کی طاقت جانچنے کیلئے ایک پیمانا ایجاد کیا ہے جسکو اس نے 'فالسی فیکیشن' (falsification) کا نام دیا تھا۔ پوپر کے مطابق کسی نظریے کے صحیح ہونے کیلئے ضروری ہے کہ وہ کسی واقعے کے واقعہ نہ ہونے کو ثابت کرے۔

مثلاً، اگر ہم کسی ماہر نفسیات سے پوچھیں ہیں کہ "ایک انسان دوسرے انسان کو- جو کہ سمندر میں ڈوبنے والا ہے- اس کی جان بچانے کیلئے کودے گا یا نہیں؟"

 اگر وہ آدمی کود جاتا ہے تو ماہر نفسیات بولیں گے کہ " اس کا لاشعور اس کے شعور پر حاوی ہوگیا تھا"(repression)۔ اگر وہ نہیں کودتا تو اُن کا جواب ہو گا کہ "اس کی کوشش سماج میں مثبت طور پر تبدیل نہ ہوسکی۔" (sublimation).

اس ہی وجہ سے پوپر نفسیات کو سائنسی نظریہ نہیں بولتا۔

اس ہی نسبت سے سازشی نظریات کو 'سائنسی' کہنا ناممکن ہے۔ اگر ان سازشی لوگوں سے پوچھا جائے کہ کیا "کیا طالبان پاکستان کے ایٹم بم تک پہنچ سکتے ہیں؟" جو "ہاں" بولیں گے۔ وہ کہیں گے کہ، "اصل طالبان پاکستان کے دوست ہیں، باقی یہود کی سازش۔" جو نہیں بولیں گے، ان کی رائے ہوگی، "یہود و نصاری کبھی ہمارے اسلامی بم کےقریب نہیں آسکتے"۔اس لئے ان کی تھیوری سے سب کچھ ثابت ہو رہا ہے، اس لئے حقیقتاً کچھ بھی ثابت نہیں ہورہا۔

تیسری اہم بات اس "رٹو طوطا" نظریے پر یہ ہے کہ اس پر سائنسی تنقید ناممکن ہے۔ یہ لوگ ذرائع ابلاغ کو مانتے ہی نہیں ہیں۔ شاید ان کو معلومات الہام ہوتی ہیں، یا کوئی فرشتہ ان کو آکر بتاتا ہے۔ چند سازشی لوگ تو اپنی تھیوری پر بلکل ویسے ہی یقین کرتے ہیں جیسے علمِ غیب پر یقین۔ یہ لوگ فرماتے ہیں کہ جس طرح مذہب میں ہر سوال کا جواب ممکن نہیں، اس ہی طرح ان کے سازشی نظریہ میں خرابی کو صرف ایک وقتی مسئلہ سمجھا جائے، جو وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوجائے گا!

کمال کی بات یہ ہے کہ اگر ذرائع ابلاغ کی خبر ان کے حق میں ہو تو یہ لوگ آنکھ بند کرکہ اس پر یقین کر لیتے ہیں۔ اس سادگی پر کون نہ مر جائے اے خدا۔

سازشی نظریات بنیادی طور پر ذہنی بیماروں کی ایجاد ہوتے ہیں، جو جنتِ الحمقا میں رہنا چاہتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس میں رکھنا چاہتے ہیں۔ جس سماج میں بہتری نظر نہ آرہی وہ، وہاں ایسے سازشی لوگ برساتی کیڑوں کی طرح پیدا ہوتے ہیں اور وقتی سکون کا باعث بنتے ہیں۔

Friday, December 14, 2012

سازشی نظریات - حصہ اول

البرٹ آئینستائن

اگر کوئی شخص سورج کو تارا بولے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن اگر وہ اسے چولھا بولنا شروع کردے تو سنے والے کو نہ سورج سمجھ آئے گا، اور نہ ہی چولھا۔

جرمن - امریکی ماہرِ طبیعات البرٹ آئینستائن نے کہا تھا: "چیزوں کو سادہ کرو، لیکن بلکل ہی سادہ نہ کردو"۔ اس کا مطلب یہ تھا کی خیالات کو آسان لفظوں میں بیان کرنا چاہیے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ خیال کو آسان بنانے کیلئے خیال ہی کو تور مروڑ دیا جائے۔ اس سے ہوتا یہ ہے کہ اصل خیال بھی متروک ہو جاتا ہے، اور جس خیال کو ہم حقیقی سمجھ رہے ہوتے ہیں، وہ صرف ہمارا ذہنی فریب ہوتا ہے۔ مثلاً، اگر کوئی شخص سورج کو تارا بولے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن اگر وہ اسے چولھا بولنا شروع کردے تو سنے والے کو نہ سورج سمجھ آئے گا، اور نہ ہی چولھا۔


دوسرا پہلوں اس قول کا یہ بھی ہے کہ اگر کوئی نظریہ ایک یا دو لفظوں میں ہر سوال کا جواب دے رہا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نظریہ "بہت زیادہ سادہ" ہوگیا ہے۔ اب یہ نظریہ سورج کو چولھا اور چولے کو سورج بولنا شروع ہو جائے گا۔ یہ اس ہی طرح ہے جس طرح بچپن میں میرے پاس ایک "سُپر مین" تھا جس کے سینے پر ایک بٹن لگا ہوا تھا۔ میں جب بھی بٹن دباتا تو اس میں سے آواز آتی:

"آئی آیم فرام کریمٹان! سُپر مین!" (I'm from Krypton! Super Man!s)