Monday, August 20, 2012

گلزار کی ایک نظم

چند دن قبل بھارت کے مشہور گیت کار، شاعر اور نظم نگار گلزار صاحب کا انٹرویو سننے کا موقع ملا۔ اتفاقاً، پچھلے ہفتے ان کی سالگرہ بھی تھی۔ اس وجہ سے اس انٹرویو کا مزاح دوبالا ہوگیا۔

گلزار صاحب نے بہت خوبصورتی کے ساتھ اپنی زندگی کے مختلف ادوار کے بارے میں بتایا۔ کس طرح ایک گاڑی پر پینٹ کرنے والا بھارت کے اول درجے کا شاعر بنا، یہ تو آپ ان ہی کی زبانی سنائیے۔

تقسیم ہند نے گلزار صاحب کی زندگی پر گہرا اثر چھوڑا ہے ۔ تقسیم ہند کے مظالم آج بھی ان کے خوابوں میں آتے ہیں اور ان کو اس ہی طرح 'ڈراتے' ہیں جیسے یہ حادثہ کل ہی ہوا ہو۔ بھارت میں جب بھی کوئی لسانی، فرقہ ورانہ، قومی، نسلی فساد ہوتا ہے، تو ان کو ڈر لگتا ہے جیسے تقسیم ہند کے مظالم ایک بار پھر دوہرائے جاسکتے ہیں۔ وہ اپنی نظم 'فسادات' میں لکھتے ہیں:

وہ تو کُل نو ہی برس کا تھا اسے کیوں چن کر
فرقہ ورانہ فسادات میں کل قتل کیا۔۔۔۔۔۔۔۔؟

باقی میں اس انٹرویو کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں لکھنا چاہتا۔ آپ خود اس انٹریو سے محظوظ ہوں:


انٹرویو کے آخر میں گلزار صاحب ایک خوبصورت نظم بھی سناتے ہیں:

اخبار کے تیسرے پنے پر
جب ہر روز دیکھتا ہوں
مرنے والوں کی تصویریں
کچھ دیر میں ڈھونڈتا رہتا ہوں
میری بھی تصویر ہے کیا؟

بے حس ہوا ہوں اب
احساس نہیں ہوتا کہ
میری سانس
آتی ہے،
جاتی ہے،
چلتی بھی ہے کہ نہیں۔

اخبار کے پہلے پنے پر
بس اعداد ہی گنتا ہوں
گنتی ہی دیکھتا ہوں
آج کے دن کتنے مرے
آج کا "اسکور" کیا ہے

بے حس ہوا ہوں اب
احساس نہیں ہوتا کہ
میری سانس
آتی ہے،
جاتی ہے،
چلتی بھی ہے کہ نہیں۔

امید ہے کہ آپ کو بھی یہ انٹرویو اتنا ہی پسند آئے گا، جتنا مجھے آیا۔

No comments:

Post a Comment