Thursday, May 17, 2012

جھنڈا اور افتخار


افتخار چار یا پانچ دنوں سے پاکستان کا جھنڈا آسمان پر لہرا رہا تھا۔ جھنڈا پورانا ہوچکا تھا اور کیونکہ بستی بہت غریب تھی اس لیے نیا خریدنا ممکن نہ تھا۔ بقول دادا جان کہ جھنڈا خریدنے سے تو بہتر ہے کسے غریب لڑکی کے جہیز کا انتظام کردو۔ "پاکستان کا جھنڈا ہو یا اسرائیل کا، جھنڈا تو جھنڈا ہوتا ہے، اپنا ہو یا پرایا"۔ دادا جان یہ جملہ ہنستے ہوئے کہتے تو بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کی بات یاد آجاتی، جن کا کہنا تھا کہ "ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے، اصلی ہو یا نقلی"۔ مجھے تو دونوں کی باتیں ہی درست لگتی ہیں۔

پر دادا جان کا پاکستان کے جھنڈے پر الگ ہی نقطہ نظر تھا۔ وہ کہتے کہ یہ تارہ اور چاند تو ترک غلامی کی نشانی معلوم ہوتی ہے۔ "دیکھو، جھوٹ کی بھی انتہاہ ہوتی ہے، غلامی آمریکہ کی اور نشانی ترکوں کی!"، دادا جان طنزیہ انداز میں کہتے۔

"لیکن تارے تو امریکہ کے جھنڈے پر بھی ہیں دادا جان؟"، سلمان، افتخار کا جھوٹا بھائی، نے دادا جان سے استفسار کیا۔

"سلمان صحیح کہا تم نے، تارے تو امریکہ کے جھنڈے پر بھی ہیں، لیکن وہ تارے غلامی کی نشانی نہیں، بلکہ امریکہ کی ہر ریاست تارے کے مانند ہے، وہ تارے استعارے کے طور پر ہیں، نہ کہ غلامی کی جھوٹی داستان"۔ 

کچھ غور کے بعد، سلمان بولا، "ہاں، ہمارا ملک تو، ایک ملک ہے نا، ہم پورے کے پورے ایک تارے کے مانند۔۔۔۔"
یہ جملہ سلمان بول ہی رہا تھا کہ ٹی-وی پر جناب عطا اللہ مینگل کا بیان آیا کہ، "ہم پر پنجابی فوج نے جو ظلم کیے ہیں، ان کا بدلہ صرف آزادی ہے"

سلمان اپنا جملہ مکمل نہ کرپایا۔ ایک ہی تارے کے اندر اتنی پھوٹ، کمال ہے!

دادا جان ہنسے اور بولے، "لال، سفید، پیلے تاروں سے قومیں ایک نہیں ہوتی، جب کسی گروہ کے معاشی مفادات اور سماج محفوظ نہ ہوں، تو تارے، بمبئی کے کسی ڈسکو میں تو اچھے لگیں گیں، جھنڈے پر نہیں۔"


افتخار جھنڈے کی حفاظت کسی مقدس اوراق کی طرح  کرتا۔ اس کے نزدیک چاند تارہ اسلام کی نشانی تھی۔  لیکن افتخار 'بدقسمتی' سے بنگلادیش کا جھنڈا بھی دیکھ چکا تھا۔ اب اگر یہ اسلام کی نشانی تھی، تو اس کا الہام صرف پاکستانیوں پر کیوں ہوا تھا، اور کیا پاکستانی نامی مخلوق دوسرے مسلم ملکوں سے زیادہ پرہیزگار ہیں؟ ساٹھ سال پہلے 'اسلام کا جھنڈا' کیسا تھا؟  اور اگر یہ 'اسلام کا جھنڈا' ہے تو بلوچی بھی تو مسلمان ہوتے ہیں، وہ کیوں نہیں لگا رہے۔

افتخار نے ایسا ہی'چاند تارہ چودھری رحمت علی کی ٹوپی پر بھی دیکھا تھا، پر وہ تو پاکستان میں رہنا درکنار، سپردِ خاک بھی کیمبرج میں ہوئے۔


"آخر یہ چاند تارہ، اتنا پیچیدہ مسئلہ کیوں ہیں"، افتخار حالتِ اضطراب میں ہم کلامی کرتے ہوئے بولا۔

" کبھی کبھار جب کوئی چیز بہت کھوکھلی ہوتی ہے، تو اس کو خواہ مخواہ پیچیدہ بنایا جاتا ہے، یہ بھی ایک فن ہے! کپڑے کا جھنڈا تو جب سمجھ میں آئے جب تن پر کپڑا ہو۔"، دادا جان ہم کلامی کے انداز میں بولے۔

یہ گفتگو چل ہی رہی تھی کے ایک لڑکا افتخار کے باغیچہ میں کودا اور افتخار کا جھنڈا لے کر بھاگا۔ 

"میرا جھنڈا مجھے واپس کرو!!"، افتخار زور سے چیخا ۔

"میری پتنگ بجلی کے کھمبے میں پھنس گئی ہے، پہلے پتنگ نکال لوں، پھر واپس کردوں گا۔"، یہ کہتا ہوا وہ کھمبے کی طرف بھاگا اور پتنگ باآسانی نکال لی۔  اس نے وہیں سےجھنڈے کوتیر کی طرح پکڑا اور افتخار کے باغیچہ کی طرف دے مارا۔ 


جھنڈا ہوا میں اڑتا اڑتا، افتخار کے باغیچہ میں آگرا اور نرم مٹی میں ایستادہ کھڑا ہوگیا۔

"اگر جھنڈا نہ ہوتا تو پتنگ کوئی اور چرا لیتا، پاکستان زندہ باد!"، یہ کہتے ہوئے وہ بچہ پتنگ اڑانے میں مشغول ہوگیا، جبکہ افتخار تقدس کا ہی سوچتا رہا۔۔۔۔۔۔

2 comments:

  1. واہ کیا خوب لکھا ہے زبردست کمیل ۔۔۔۔ جیتے رہو

    ReplyDelete