Wednesday, November 14, 2012

عطاء اللہ کا معاشرہ

ہمارے سماج کی کیفیت۔ ذرائع: businessweek.com

عطاء اللہ بار بار قلم اٹھاتا اور پھر رکھ دیتا۔ کاغذ پر کچھ نشانات بناتا اور پھر مٹا دیتا۔ ریاضی کا طالبِ علم تھا، پر ریاضی کے علاوہ بہت ساری چیزیں اس کے ذہن میں شورش برپا کرتی تھیں۔ سقراط کے بقول انسان ایک سیاسی جانور ہے ۔ آئنسٹائن کا کہنا ہے کہ انسان کو ریاضی اور سیاست کے درمیان اپنا وقت گزارنا چاہیے اور اپنے وقت کا بہترین امتزاج ڈھنڈنا چاہیے۔ پر عطاء اللہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ایسا کرنے سے قاصر تھا۔


سائنس اور ریاضی کے بارے میں تو مشہور ہے کہ یہ علم امن اور خوشحالی کے دور میں ہی پیدا ہوتا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کی شروعات میں جرمنی اور اگلستان کے درمیان معاہدہ ہوا تھا کہ جرمنی کیمبرج اور آکسفورڈ پر حملہ نہیں کرے گا اور جواباً انگلستان جامعہِ ہیمبرگ (Hamburg) کو ہاتھ نہیں لگائے گا۔ دونوں ملکوں نے اپنے عہد پر عمل کیا اور دورانِ جنگ بھی علم کو پنپنے کا موقع دیا۔



مگر عطاء اللہ کاملک نہ تو جرمنی تھا اور نہ ہی انگلستان۔ عطاءاللہ پاکستان کا شہری تھا، اور اُسے ہر لمحے کسی نہ کسی قسم کے عذاب سے گزرنا پڑتا تھا۔ یہ عذاب ذہنی کوفت سے شروع ہوتا تھا اور پھر بھنور کی صورت اختیار کرلیتا تھا۔ مسلسل ایک ہی چیز کے بارے میں سوچنے سے اس میں نفسیاتی مرض بھی پیدا ہوگیا تھا۔ عطاء اللہ کو اب اپنا نام بھی پسند نہیں آرہا تھا۔ ہم کلامی کرتے ہوئے بولا، "ملالہ کے قاتل کا نام بھی یہی تھا، اور میرا بھی یہی ہے؟ دنیا میں اربوں نام ہیں پھر ایسا اتفاق صرف میرے ساتھ ہی کیوں ہوا ہے؟ کیا مُرفی کا قانون صرف مجھ پر ہی لاگو ہوتا ہے؟ ایسی بدقسمتی صرف میرے ساتھ ہی کیوں؟" ۔ عطاء اللہ یہ جانتا تھا کہ ناموں سے کوئی فرق نہیں ہوتا، پر اس کو اپنے نام سے ملالہ کا قاتل یاد آتا تھا۔



قاتل کا یاد آنا تو ایسی چیز تھی، جس کو عطاءاللہ بھول سکتا تھا۔ پر آئے دن ہونے والی قتل و غارت گری، اس کے ذہن میں تازہ تھی۔ وہ کسی طرح اس بچے کو بھول نہیں سکتا تھا جس کو احمدی ہونے پر اسکول سے نکال دیا گیا تھا۔ اس لڑکی کا ساتھ نہ دینے پر اپنی شرمندگی کیسے بھولتا جو اپنے علاقے میں عورتوں کی بہتری کیلئے کام کررہی تھی۔ کل ہی اس عورت کو قتل کرنے کا حکم جاری کیا گیا تھا۔ عطاء اللہ کو اپنا دوست علی مہدی بہت یاد آرہا تھا، جس کے ساتھ اس نے پچھلے سال بلوچستان میں جشنِ نوروز منایا تھا۔ اس کی تین بیٹیوں کے سر پر اب کوئی باپ نہیں رہا تھا۔ علی مہدی کو مذہب کے نام پر مار دیا گیا اور لاتعداد اور علی مہدی مار دیے گئے۔ 



عطاء اللہ کو اپنی پیاری دوست امریتہ کماری بہت یاد آرہی تھی۔ کچھ ماہ قبل اس کی اور امریتہ کی ملاقات ایک بین الاقوامی طبعیاتی نمائش میں ہوئی تھی. امریتہ کو یہ بات جان کر بہت خوشی ہوئی تھی کہ عطاء اللہ اس کا ہم وطن ہے۔ امریتہ نے عطاء اللہ کو ڈاکٹر سلام کی تصویر تحفے کے طور پر پیش کی تھی جس کے پیچھے اس نے کارل سیگن (Carl Sagan) کا قول اپنے قلم سے لکھا تھا: "کسی چیز کو سمجھنا دنیا کا سب سے خوبصورت عمل ہے۔" ڈاکٹر سلام کی وہ تصویر اس کی میز پر ہمشہ رکھی رہتی تھی اور وہ قول تو عطاءاللہ کی زندگی کا مقصد تھا۔ لیکن امریتہ سے بات کیے ہوئے بھی ایک سال گز گیا تھا۔ معلوم نہیں امریتہ کہاں ہوگی؟ کیا اس کا بھی مذہب کسی نے زبردستی بدل دیا ہے یا وہ اپنی جان بچانے کے لیے بھارت چلی گئی ہے۔ اگر وہ اس ملک میں موجود بھی ہے تو کیا اُسے سوچنے کی آزادی موجود ہے؟ کیا امریتہ پاکستان، جو اس کا اپنا ملک ہے، زیادہ خوشی کے ساتھ اپنا کام کرسکتی ہے یہ دیارِ غیر اس کیلئے زیادہ مفید اور پرامن ہے؟ لیکن عطاء اللہ کے ذہن میں ایک اور خیال بھی تھا کہ شاید اس نے سائنس چھوڑ کر اپنے اہلِ مذہب کی خدمت شروع کردی ہو۔ کیونکہ اگر وجود ہی محفوظ نہیں تو کہاں کی سائنس اور کہاں کی ریاضی؟



عطاء اللہ جولیئس کو تو بھول ہی نہیں سکتا تھا۔ جولئیس کا ہوٹل اس کے گھر سے پیڈل کے رستے پر تھا۔ اس کا چائے کا چھوٹا سا ہوٹل تھا جس میں بی بی مریم کی ایک تصویر صدر دروازے کے اوپر مزین تھی۔ عطاء اللہ کو وہ تصویر ہمیشہ دل فریب محسوس ہوتی تھی اور تصویر دیکھنے پر ہر بار اس پر ایک نئی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ مہینے بھر پہلے جولئیس گرجا گھر میں اپنی عبادت میں مصروف تھا جب اس پر حملہ ہوگیا۔ اس حملے میں وہ بہت زخمی ہوا۔ اس سے کہا گیا کہ آگر اس نے اپنے ہوٹل پر سے بی بی مریم کی تصویر نہیں ہٹائی تو اگلی بار اس کا ہوٹل نہیں بچے گا۔ جولئیس کے دو چھّوٹے بیٹے تھے جن کا وہ واحد کفیل تھا۔ تصویر ہٹانا ہی زندہ رہنے کا واحد راستہ تھا۔ تصویر ہٹانے کے بعد جولیئس سہم سہم سا گیا تھا، اس کی چائے میں اب پہلی جیسی بات نہیں رہی تھی، رفتہ رفتہ چائے کی کولیٹی میں بھی فرق پڑنے لگا اور لوگوں کی تعداد کم ہوتی چلی گئی۔ اور پھر ایسا وقت آیا کہ جولئیس کو شہر چھوڑ کر نامعلوم مقام کی طرف ہجرت کرنی پڑی۔



کبھی کبھی عطاء اللہ یہ بھی سوچتا ہے کہ اگر اس کے ملک میں یہودی ہوتے تو ان کے ساتھ کیا سلوک ہوتا؟ کیا ان کاحال بھی رحمان بابا کے مزار کی طرح کردیاجاتا؟ خدا کا شکر ہے کہ یہاں کوئی یہودی نہیں، ورنہ ہٹلر بھی شرما جاتا۔



علی مہدی، امریتہ کماری، اور جولئیس کی یادیں عطاء اللہ کو کام کرنے سے روکتی ہیں۔ وہ جب بھی کام کرنا شروع کرتا ہے تو علی کے لطیفے، امریتہ کی ہنسی اور جولئیس کی چائے یاد آجاتی ہے۔



عطاء اللہ خیال کی وادیوں سے پھر حقیقت کی طرف آیا اور کاغذ پر ریاضی کرنا شروع ہوگیا۔ ابھی اس نے سوال ہی لکھا تھا کہ اچانک سے ایک ذور دار آواز آئی۔



"اللہ خیر کرے!"، عطاء اللہ بولا



اس نے اپنی کھڑکی کھولی تو لوگوں کا ایک بہت بڑا ہجوم ایک ہی سمت میں بھاگتا نظر آیا۔ وہ فوراً ریڈیو کی طرف لپکا اور خبر سنے کے بعد دوبارہ سکتے میں چلا گیا:



"مارکیٹ میں خودکُش حملہ، ۲۰ افراد جاں بحق۔۔۔۔۔۔"

No comments:

Post a Comment