Thursday, November 29, 2012

آردیشر کاوسجی کے اعزاز میں

آردیشر کاوسجی ایک انٹرویو کے دوران

انھوں نے زندگی خدمتِ خلق میں گزاری اور انتقال کے بعد پارسی مذہب کے مطابق اپنا جسم پرندوں کی خدمت میں پیش کردیا۔ یہ دنیاوی خدمت کا "بعد از مرگ تسلسل" سمجھا جاسکتا ہے۔


انگریزی اخبار ڈان پڑھنے کی ایک وجہ کاوسجی صاحب کا کالم تھا. وہ باتیں تو سیدھی سادی لکھتے تھے، لیکن ہمارے سماج میں سیدھی سادی بات کرنا ہی مشکل کام ہے۔ معمولی معمولی باتوں کو یہاں اس طرح پہاڑ بنایا جاتا ہے جیسے کہ اس کے علاوہ اور کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ مثلاً، چورنگی کا نام بھگت سنگھ پر رکھا جائے یا نہیں، آلو اور ٹماٹر بھارت سے درآمد کیے جائیں یا بھارت سے بذریعہ دبئی پاکستان لائے جائیں۔ سی- این - جی کی ہرتال دو دن ہو یا تین دن اور چار گھنٹے کی ہو یا پانج گھنٹے کی، پولیس کی وردی کا رنگ بدلا جائے یا نہیں، حتیٰ کہ ملالہ کو ایجنٹ کس کس طرح ثابت کیا جائے، یہ وہ سارے فلسفینہ مباحث ہیں جن پر ہمارا کافی وقت صرف ہو جاتا ہے۔ ویسے بھی ہمیں وقت کا کیا کرنا، آدھا وقت اس کام میں صرف ہو جاتا ہے، کچھ وقت لوڈ شیڈنگ کی نظر، اور باقی بچا کچا وقت پٹرول پمپ کی طویل قطاروں کی نظر۔ 

لیکن کاوسجی صاحب کچھ مختلف نقطہِ نظر کے مالک تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی جس ڈھپ سے گزاری اس کو "آزاد درویش" کا نام دیا جاسکتا ہے۔ کمال کی شخصیت کے مالک اور زندہ دل آدمی۔ مجھے قائد اعظم کی گیارہ اگست کی تقریر کے بارے میں ان سے معلوم ہوا، آبادی میں پاگل پن حد تک اضافے سے پاکستان اور خصوصاً کراچی کو کیا نقصانات درپیش ہیں، اس کا بھی ان سے پتہ چلا۔ سماج میں بڑھتی ہوئی اسلامی انتہاہ پسندی کی بیماری کا ذکر بھی ان کے کالم میں ملتا تھا۔ پاکستان کے ریاستی ڈھانچے کو سکیولر سے مذھبی تبدیل کرنے کی کوششوں کا ذکر بھی بہت نمایاں تھا۔ کاوسجی صاحب نے ہمیشہ 'جناح صاحب کے ۱۱ اگست والے پاکستان' کی حمایت کی اور آخری دم تک کرتے رہے۔ ان کے اپنے بقول، وہ کالم صرف ذہنی وردش کیلئے لکھتے تھے نہ کہ پیسے بنانے کیلئے۔ کیونکہ کالم سے ہونے والی آمدنی ان کی ٹائی کی قیمت سے بھی کم تھا۔

کیا کاوسجی صاحب اپنی ۲۲ سالہ صحافتی زندگی میں کسی نقطے تک پہنچے؟ اس کا جواب انھوں نے اپنے آخری کالم میں خود دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
"سال کے اس آخری اتوار کو، یہ میرا اس اخبار کیلئے آخری کالم ہے۔ اب، ۸۵ سال کی عمر میں، میں تھک چکا ہوں اور اس ملک سے ناامید بھی ہوں۔ ایسا ملک جو کسی طرح بھی اپنے کِل سیدھے کرنے میں ناکام رہا۔ میں نے اس کام کو خیر باد کہنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔"
کاوسجی صاحب نے اپنی زندگی میں بے انتہاہ خدمتِ خلق کی۔ دی سٹیزن فائونڈیشن (The Citizen Foundation) ہو یا ایس - آئی - یو - ٹی (SIUT)، انھوں نے ان اداروں کی دل کھول کر امداد کی۔ کراچی شہر میں غیر قانونی اجارہ داری اور تعمیرات کے خلاف بھی خوب سرگرم رہے۔ انھوں نے زندگی خدمتِ خلق میں گزاری اور انتقال کے بعد پارسی مذہب کے مطابق اپنا جسم پرندوں کی خدمت میں پیش کردیا۔ یہ دنیاوی خدمت کا "بعد از مرگ تسلسل" سمجھا جاسکتا ہے۔

کیا نوجوانوں کیلئے ان کے پاس کوئی حل تھا؟ بلکل تھا۔ جتنی جلدی ہو سکے ملک چھوڑ دو اور جو نہ چھوڑ سکے وہ برداشت کرے۔ شاید یہی ممکنہ حل ہے اس سماج میں جینے کا۔ انھوں نے بہت سارے طالبِ علموں کو اسکالر شپ دیں تاکہ وہ باہر جاکر علم حاصل کریں۔ اس سے ملک کے حالات بہتر ہوں یا نہ ہوں کم از کم ان کے اپنے حالات ضرور بہتر ہوگئے ہوں گے۔ اپنے مشورے پر انھوں نے خود اس لئے عمل نہیں کیا کیونکہ وہ آخری دم تک یہاں بسنے والے لوگوں سے تعلق قائم رکھنا چاہتے تھے۔

عام لوگوں کو کاوسجی صاحب کا جو چہرہ نظر آیا وہ ٹیلی وژن اسکرین کا تھا۔ یہاں پر انھوں نے 'عام اردو' کے استعاروں سے سماج کو سمجھانے کی کوشش کی۔ ایک پروگرام کے دوران فرماتے ہیں، " سالےگٹر بنا نہیں سکتے، ایٹم بم چلائیں گے!" ٹیلی وژن والے کاوسجی نے لوگوں کے دل میں اپنی جگہ بنا لی۔

Wednesday, November 14, 2012

عطاء اللہ کا معاشرہ

ہمارے سماج کی کیفیت۔ ذرائع: businessweek.com

عطاء اللہ بار بار قلم اٹھاتا اور پھر رکھ دیتا۔ کاغذ پر کچھ نشانات بناتا اور پھر مٹا دیتا۔ ریاضی کا طالبِ علم تھا، پر ریاضی کے علاوہ بہت ساری چیزیں اس کے ذہن میں شورش برپا کرتی تھیں۔ سقراط کے بقول انسان ایک سیاسی جانور ہے ۔ آئنسٹائن کا کہنا ہے کہ انسان کو ریاضی اور سیاست کے درمیان اپنا وقت گزارنا چاہیے اور اپنے وقت کا بہترین امتزاج ڈھنڈنا چاہیے۔ پر عطاء اللہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ایسا کرنے سے قاصر تھا۔


سائنس اور ریاضی کے بارے میں تو مشہور ہے کہ یہ علم امن اور خوشحالی کے دور میں ہی پیدا ہوتا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کی شروعات میں جرمنی اور اگلستان کے درمیان معاہدہ ہوا تھا کہ جرمنی کیمبرج اور آکسفورڈ پر حملہ نہیں کرے گا اور جواباً انگلستان جامعہِ ہیمبرگ (Hamburg) کو ہاتھ نہیں لگائے گا۔ دونوں ملکوں نے اپنے عہد پر عمل کیا اور دورانِ جنگ بھی علم کو پنپنے کا موقع دیا۔



مگر عطاء اللہ کاملک نہ تو جرمنی تھا اور نہ ہی انگلستان۔ عطاءاللہ پاکستان کا شہری تھا، اور اُسے ہر لمحے کسی نہ کسی قسم کے عذاب سے گزرنا پڑتا تھا۔ یہ عذاب ذہنی کوفت سے شروع ہوتا تھا اور پھر بھنور کی صورت اختیار کرلیتا تھا۔ مسلسل ایک ہی چیز کے بارے میں سوچنے سے اس میں نفسیاتی مرض بھی پیدا ہوگیا تھا۔ عطاء اللہ کو اب اپنا نام بھی پسند نہیں آرہا تھا۔ ہم کلامی کرتے ہوئے بولا، "ملالہ کے قاتل کا نام بھی یہی تھا، اور میرا بھی یہی ہے؟ دنیا میں اربوں نام ہیں پھر ایسا اتفاق صرف میرے ساتھ ہی کیوں ہوا ہے؟ کیا مُرفی کا قانون صرف مجھ پر ہی لاگو ہوتا ہے؟ ایسی بدقسمتی صرف میرے ساتھ ہی کیوں؟" ۔ عطاء اللہ یہ جانتا تھا کہ ناموں سے کوئی فرق نہیں ہوتا، پر اس کو اپنے نام سے ملالہ کا قاتل یاد آتا تھا۔



قاتل کا یاد آنا تو ایسی چیز تھی، جس کو عطاءاللہ بھول سکتا تھا۔ پر آئے دن ہونے والی قتل و غارت گری، اس کے ذہن میں تازہ تھی۔ وہ کسی طرح اس بچے کو بھول نہیں سکتا تھا جس کو احمدی ہونے پر اسکول سے نکال دیا گیا تھا۔ اس لڑکی کا ساتھ نہ دینے پر اپنی شرمندگی کیسے بھولتا جو اپنے علاقے میں عورتوں کی بہتری کیلئے کام کررہی تھی۔ کل ہی اس عورت کو قتل کرنے کا حکم جاری کیا گیا تھا۔ عطاء اللہ کو اپنا دوست علی مہدی بہت یاد آرہا تھا، جس کے ساتھ اس نے پچھلے سال بلوچستان میں جشنِ نوروز منایا تھا۔ اس کی تین بیٹیوں کے سر پر اب کوئی باپ نہیں رہا تھا۔ علی مہدی کو مذہب کے نام پر مار دیا گیا اور لاتعداد اور علی مہدی مار دیے گئے۔ 



عطاء اللہ کو اپنی پیاری دوست امریتہ کماری بہت یاد آرہی تھی۔ کچھ ماہ قبل اس کی اور امریتہ کی ملاقات ایک بین الاقوامی طبعیاتی نمائش میں ہوئی تھی. امریتہ کو یہ بات جان کر بہت خوشی ہوئی تھی کہ عطاء اللہ اس کا ہم وطن ہے۔ امریتہ نے عطاء اللہ کو ڈاکٹر سلام کی تصویر تحفے کے طور پر پیش کی تھی جس کے پیچھے اس نے کارل سیگن (Carl Sagan) کا قول اپنے قلم سے لکھا تھا: "کسی چیز کو سمجھنا دنیا کا سب سے خوبصورت عمل ہے۔" ڈاکٹر سلام کی وہ تصویر اس کی میز پر ہمشہ رکھی رہتی تھی اور وہ قول تو عطاءاللہ کی زندگی کا مقصد تھا۔ لیکن امریتہ سے بات کیے ہوئے بھی ایک سال گز گیا تھا۔ معلوم نہیں امریتہ کہاں ہوگی؟ کیا اس کا بھی مذہب کسی نے زبردستی بدل دیا ہے یا وہ اپنی جان بچانے کے لیے بھارت چلی گئی ہے۔ اگر وہ اس ملک میں موجود بھی ہے تو کیا اُسے سوچنے کی آزادی موجود ہے؟ کیا امریتہ پاکستان، جو اس کا اپنا ملک ہے، زیادہ خوشی کے ساتھ اپنا کام کرسکتی ہے یہ دیارِ غیر اس کیلئے زیادہ مفید اور پرامن ہے؟ لیکن عطاء اللہ کے ذہن میں ایک اور خیال بھی تھا کہ شاید اس نے سائنس چھوڑ کر اپنے اہلِ مذہب کی خدمت شروع کردی ہو۔ کیونکہ اگر وجود ہی محفوظ نہیں تو کہاں کی سائنس اور کہاں کی ریاضی؟



عطاء اللہ جولیئس کو تو بھول ہی نہیں سکتا تھا۔ جولئیس کا ہوٹل اس کے گھر سے پیڈل کے رستے پر تھا۔ اس کا چائے کا چھوٹا سا ہوٹل تھا جس میں بی بی مریم کی ایک تصویر صدر دروازے کے اوپر مزین تھی۔ عطاء اللہ کو وہ تصویر ہمیشہ دل فریب محسوس ہوتی تھی اور تصویر دیکھنے پر ہر بار اس پر ایک نئی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ مہینے بھر پہلے جولئیس گرجا گھر میں اپنی عبادت میں مصروف تھا جب اس پر حملہ ہوگیا۔ اس حملے میں وہ بہت زخمی ہوا۔ اس سے کہا گیا کہ آگر اس نے اپنے ہوٹل پر سے بی بی مریم کی تصویر نہیں ہٹائی تو اگلی بار اس کا ہوٹل نہیں بچے گا۔ جولئیس کے دو چھّوٹے بیٹے تھے جن کا وہ واحد کفیل تھا۔ تصویر ہٹانا ہی زندہ رہنے کا واحد راستہ تھا۔ تصویر ہٹانے کے بعد جولیئس سہم سہم سا گیا تھا، اس کی چائے میں اب پہلی جیسی بات نہیں رہی تھی، رفتہ رفتہ چائے کی کولیٹی میں بھی فرق پڑنے لگا اور لوگوں کی تعداد کم ہوتی چلی گئی۔ اور پھر ایسا وقت آیا کہ جولئیس کو شہر چھوڑ کر نامعلوم مقام کی طرف ہجرت کرنی پڑی۔



کبھی کبھی عطاء اللہ یہ بھی سوچتا ہے کہ اگر اس کے ملک میں یہودی ہوتے تو ان کے ساتھ کیا سلوک ہوتا؟ کیا ان کاحال بھی رحمان بابا کے مزار کی طرح کردیاجاتا؟ خدا کا شکر ہے کہ یہاں کوئی یہودی نہیں، ورنہ ہٹلر بھی شرما جاتا۔



علی مہدی، امریتہ کماری، اور جولئیس کی یادیں عطاء اللہ کو کام کرنے سے روکتی ہیں۔ وہ جب بھی کام کرنا شروع کرتا ہے تو علی کے لطیفے، امریتہ کی ہنسی اور جولئیس کی چائے یاد آجاتی ہے۔



عطاء اللہ خیال کی وادیوں سے پھر حقیقت کی طرف آیا اور کاغذ پر ریاضی کرنا شروع ہوگیا۔ ابھی اس نے سوال ہی لکھا تھا کہ اچانک سے ایک ذور دار آواز آئی۔



"اللہ خیر کرے!"، عطاء اللہ بولا



اس نے اپنی کھڑکی کھولی تو لوگوں کا ایک بہت بڑا ہجوم ایک ہی سمت میں بھاگتا نظر آیا۔ وہ فوراً ریڈیو کی طرف لپکا اور خبر سنے کے بعد دوبارہ سکتے میں چلا گیا:



"مارکیٹ میں خودکُش حملہ، ۲۰ افراد جاں بحق۔۔۔۔۔۔"

Friday, November 9, 2012

IDEAS in Karachi - An Economic Perspective

Data taken from indexmundi.com

Pakistan Army's budget has increased exponentially after September 11 incident in United States. The reason for the initial sharp increase was the massive military aid from United States when Pakistan became a front line state against fight against global terrorism. 

The rally has since continued over the whole decade. During this era, Pakistan Army did a successful operation Swat extermination extremism from the valley. The army also organised a partially successful operation in South Waziristan. Inflation also caused the military budget to inflate.

Interestingly, the budget has decreased in %GDP  terms. As the military share as %GDP decreases, need for alternate sources of money is inevitable. There is nothing unusual or unique for an army to exhibit and sale weapons. All army in the corporate world do this. 

With a plunging %GDP share of Pakistan Army over the next decade, we can predict that the scale of  such military exhibitions might become large and more global.


The Armed Forces yet again come up with their lucrative idea of exhibiting some piece of nuclear bombs, re-engineered tanks, and probably some dozens of guns and military related equipments.

Arms are by definition tools of aggression and exploitation. In this age of rapid scientific development, the means of aggression have taken a big leap compared to the first gun invented in China during the 15th century. Today arms are seen in 'relative terms'. We hear the term 'arm race' frequently on the television and read this in the newspaper. What this terms basically mean is that the tools of aggression require constant up-gradation so that two countries can compete each other in a military struggle.

With this conception of 'arm race', weapon industry has become a lucrative capital generator. The race goes on, and nations throw billions of dollar in a deep abyss to keep up with her enemy (or self-created enemies). The Armed Force of Pakistan have staged yet another military exhibition to exploit more capital for keeping the military industry going.

The slogan of the exhibition says: "IDEAS: Arms for Peace". Isn't this an oxymoron just like Ansar Abbasi uses the term 'Liberal Extremist'?  It's like Ganges Khan erecting a 'tower of heads', and then saying that the tower was built in order to keep foreign citizen away from the conquered territory! If there had been no towers, more people would had had died in those medieval wars.

Although, there is no doubt that peace can come in a region through armed struggle. After WWII, Europe was blessed with eternal peace. The French Ambassador to Pakistan rightly said, "Before 1930s, peace was unimaginable between France and Germany, after 1940s, war is unimaginable." The use of weapon in South Waziristan by Pakistan Army is highly commendable. This is the only way to purge terrorist and extremists from the Pakistani soil.

On the other hand, weapons used with a philosophy of creating instability become a scar for human civilization. Arms have been used a source to quell natural rights of human. Citizens have been forced through guns to follow the whims of institutionalised power hierarchy. It can be stated that arms have an inherent magnetism to stick with the most powerful. A glimpse of history is enough to prove this thesis:

1) Killing of Indonesian people to purge communists (1965)
2) Suppression of Bengali speaking people (1971) 
3) Mass killing of Sikhs during Khalistan movement (1986)
4) Suppression during the June Fourth Incident (1989)

One last point. The exhibition is organized in one of the most busiest locations in Karachi. Roads are blocked to stop terrorists from gazing these equipments. This is causing  mammoth problems for ambulances, employees, school going students, university professors, and people from other walks of life. 

Civilized nations don't eulogize weapons. They are proud of their intellectual development and high standard of living. Karachi is exploding with mass killings. Displaying weaponry, only increases the love for warfare in the minds of the mediocre. There is nothing to extol about a gun or a missile. It will be better if the army arranges such capital-making activities in their lush-green GHQ. This will keep them satisfied, and keep millions of Karachite out of sever traffic headache.