انھوں نے زندگی خدمتِ خلق میں گزاری اور انتقال کے بعد پارسی مذہب کے مطابق اپنا جسم پرندوں کی خدمت میں پیش کردیا۔ یہ دنیاوی خدمت کا "بعد از مرگ تسلسل" سمجھا جاسکتا ہے۔
انگریزی اخبار ڈان پڑھنے کی ایک وجہ کاوسجی صاحب کا کالم تھا. وہ باتیں تو سیدھی سادی لکھتے تھے، لیکن ہمارے سماج میں سیدھی سادی بات کرنا ہی مشکل کام ہے۔ معمولی معمولی باتوں کو یہاں اس طرح پہاڑ بنایا جاتا ہے جیسے کہ اس کے علاوہ اور کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ مثلاً، چورنگی کا نام بھگت سنگھ پر رکھا جائے یا نہیں، آلو اور ٹماٹر بھارت سے درآمد کیے جائیں یا بھارت سے بذریعہ دبئی پاکستان لائے جائیں۔ سی- این - جی کی ہرتال دو دن ہو یا تین دن اور چار گھنٹے کی ہو یا پانج گھنٹے کی، پولیس کی وردی کا رنگ بدلا جائے یا نہیں، حتیٰ کہ ملالہ کو ایجنٹ کس کس طرح ثابت کیا جائے، یہ وہ سارے فلسفینہ مباحث ہیں جن پر ہمارا کافی وقت صرف ہو جاتا ہے۔ ویسے بھی ہمیں وقت کا کیا کرنا، آدھا وقت اس کام میں صرف ہو جاتا ہے، کچھ وقت لوڈ شیڈنگ کی نظر، اور باقی بچا کچا وقت پٹرول پمپ کی طویل قطاروں کی نظر۔
لیکن کاوسجی صاحب کچھ مختلف نقطہِ نظر کے مالک تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی جس ڈھپ سے گزاری اس کو "آزاد درویش" کا نام دیا جاسکتا ہے۔ کمال کی شخصیت کے مالک اور زندہ دل آدمی۔ مجھے قائد اعظم کی گیارہ اگست کی تقریر کے بارے میں ان سے معلوم ہوا، آبادی میں پاگل پن حد تک اضافے سے پاکستان اور خصوصاً کراچی کو کیا نقصانات درپیش ہیں، اس کا بھی ان سے پتہ چلا۔ سماج میں بڑھتی ہوئی اسلامی انتہاہ پسندی کی بیماری کا ذکر بھی ان کے کالم میں ملتا تھا۔ پاکستان کے ریاستی ڈھانچے کو سکیولر سے مذھبی تبدیل کرنے کی کوششوں کا ذکر بھی بہت نمایاں تھا۔ کاوسجی صاحب نے ہمیشہ 'جناح صاحب کے ۱۱ اگست والے پاکستان' کی حمایت کی اور آخری دم تک کرتے رہے۔ ان کے اپنے بقول، وہ کالم صرف ذہنی وردش کیلئے لکھتے تھے نہ کہ پیسے بنانے کیلئے۔ کیونکہ کالم سے ہونے والی آمدنی ان کی ٹائی کی قیمت سے بھی کم تھا۔
کیا کاوسجی صاحب اپنی ۲۲ سالہ صحافتی زندگی میں کسی نقطے تک پہنچے؟ اس کا جواب انھوں نے اپنے آخری کالم میں خود دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
"سال کے اس آخری اتوار کو، یہ میرا اس اخبار کیلئے آخری کالم ہے۔ اب، ۸۵ سال کی عمر میں، میں تھک چکا ہوں اور اس ملک سے ناامید بھی ہوں۔ ایسا ملک جو کسی طرح بھی اپنے کِل سیدھے کرنے میں ناکام رہا۔ میں نے اس کام کو خیر باد کہنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔"
کاوسجی صاحب نے اپنی زندگی میں بے انتہاہ خدمتِ خلق کی۔ دی سٹیزن فائونڈیشن (The Citizen Foundation) ہو یا ایس - آئی - یو - ٹی (SIUT)، انھوں نے ان اداروں کی دل کھول کر امداد کی۔ کراچی شہر میں غیر قانونی اجارہ داری اور تعمیرات کے خلاف بھی خوب سرگرم رہے۔ انھوں نے زندگی خدمتِ خلق میں گزاری اور انتقال کے بعد پارسی مذہب کے مطابق اپنا جسم پرندوں کی خدمت میں پیش کردیا۔ یہ دنیاوی خدمت کا "بعد از مرگ تسلسل" سمجھا جاسکتا ہے۔
کیا نوجوانوں کیلئے ان کے پاس کوئی حل تھا؟ بلکل تھا۔ جتنی جلدی ہو سکے ملک چھوڑ دو اور جو نہ چھوڑ سکے وہ برداشت کرے۔ شاید یہی ممکنہ حل ہے اس سماج میں جینے کا۔ انھوں نے بہت سارے طالبِ علموں کو اسکالر شپ دیں تاکہ وہ باہر جاکر علم حاصل کریں۔ اس سے ملک کے حالات بہتر ہوں یا نہ ہوں کم از کم ان کے اپنے حالات ضرور بہتر ہوگئے ہوں گے۔ اپنے مشورے پر انھوں نے خود اس لئے عمل نہیں کیا کیونکہ وہ آخری دم تک یہاں بسنے والے لوگوں سے تعلق قائم رکھنا چاہتے تھے۔
عام لوگوں کو کاوسجی صاحب کا جو چہرہ نظر آیا وہ ٹیلی وژن اسکرین کا تھا۔ یہاں پر انھوں نے 'عام اردو' کے استعاروں سے سماج کو سمجھانے کی کوشش کی۔ ایک پروگرام کے دوران فرماتے ہیں، " سالےگٹر بنا نہیں سکتے، ایٹم بم چلائیں گے!" ٹیلی وژن والے کاوسجی نے لوگوں کے دل میں اپنی جگہ بنا لی۔