پچھلے ہفتہ جرمنی میں دو سال مکمل ہوگئے۔ ایک بری عادت جس کا مجھے افسوس ہے وہ یہ ہے کہ میں نے لکھنا چھوڑ دیا۔ اس کی ایک وجہ میری کاہلی ہے اور دوسری وجہ عنوانات کی کمی۔ کافکے نے وہ کہا ہے نہ کہ لکھاری درد کی گہرہیوں میں لکھتا ہے۔ اب نہ یہاں کوئی درد اور نہ ہی کوئی گہرائی کا احساس۔ ہاہاہاہا۔۔۔۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہاں کوئی مسئلہ نہیں، بلکہ مجھے ان لوگوں کے مسئلوں میں کوئی دلچسپی ہیں نہیں۔ ان کے مسائل پیچدگی کی جس منزل پر ہیں، اتنی میری سمجھ نہیں ہے۔ اس لیے اس پر لکھنا بلکل ایسا ہی ہے جیسے ہمارے میں عربی زبان یا قدیم آفریقی ثقافت پر کچھ لکھ رہا ہوں۔
جرمنی میں دو سال مکمل ہونے پر میں نے سوچا کہ کچھ لکھوں اس سے پہلے کے جرمنی میری یاد سے اُجھل ہو جائے۔ یہ صرف ایک یاد داشت کو سنبھالنے کی کوشش ہے۔
جرمنی میں پہلے دن سے ہی کچھ نیا سیکھنے کو مل رہا ہے۔ پہلے دن جب میں اپنے شہر کے ریلوے اسٹیشن پہنچا تو بلکل ایسا لگا کہ الگ دنیا میں آگیا ہوں۔ الگ زبان، رنگ، اور طور کے لوگ نظر آئے۔ بدقسمتی رہی کہ میری آمد دیر سے ہوئی اس لیے جامعہ کے لوگ مجھے لینے نہ آسکے اور کیونکہ میرا یہاں پر پاکستانی لوگوں سے رابطہ نہیں ہوسکا اس لیے وہ بھی غیر حاضر تھے۔ اب میں تنہاہ یہ سوچ رہا تھا کہ کیا کروں۔ جیب میں کچھ سکے تھے، سوچا گھر کال کر کے بتا دوں کے زندہ سلامت پہنچ گیا ہوں۔ تو اس واسطے قریب ترین فون بوت پرگیا اور فون استعمال کرنے کی کوشش کی۔ اب پہلا حادثہ یہی پر ہوا۔ پوری کو پوری مشین جرمن زبان میں تھی۔ کبھی پاکستان میں اس طرح کی مشین استعمال کرنے کا اتفاق نہیں ہوا، اس لیے اور مشکل ہو رہی تھی۔ میں نے سوچا کے پیسے ڈالتا ہوں اور پھر دیکھتا ہوں کہ کیا ہوتا ہے۔ یہی سوچ کر دو یورو اس میں ڈال دیے۔ پیسے ڈالے ہی تھے کے مشین کی اسکرین پر پھر کچھ جرمن میں لکھا آگیا۔ میں نے دل میں سوچا کہ مجھے تو صرف کال کرنی ہے، اتنی ڈرامہ بازی یہ مشین کیوں کر رہی ہے۔ خیر میں مشین پر ہی کھڑا تھا اور جرمن سمجھنے کی کوشش کرہا تھا کہ اب کون سا بٹن دبایا جائے۔ میں پڑھ ہی رہا تھا کہ اتنے میں میرا دو یورو کا سکا مشین سے باہر آگیا۔
میں نے پھر سکا ڈالا، اور اس بار یہ ٹھانی کہ کچھ بھی لکھا آئے میں سکا ڈالتے ہیں کال ملانا شروع کردوں گا۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ میں نے لمبا سا نمبر ڈالا اور کال ملنے کا انتظار کیا۔ کال پھر مل کر نہ دی۔ میں پاکستان سے اچھی خاسی جرمن سیکھ کر آیا تھا لیکن شاید پاکستان سے دبئ ، پھر فراینکفرت، اور پھر کیسسرلوٹرن تک کے سفر نے مجھے بہت تھکا دیا تھا۔
قریب کوئی آدمی بھی نہ تھا جس سے میں پوچھ کر مشین استعمال کرتا، اور فرض کیا کوئی ہوتا بھی تو معلوم نہیں اسکو کیا بولتا۔ زبان من ترکی و تو ترکی نمی دانم! سردی بھی تھی، اور تھکن الگ، اس لیے میں نے فون کرنے کی کاوش کو ترک کردیا۔
مجھے اب دو سال بعد سمجھ آیا کہ وہ مشین اتنی مشکل نہیں تھی۔ بات صرف یہ تھی کہ ہر جگہ لوگ مختلف طریقوں سے سوچتے ہیں۔ ہم لوگ صرف کام نکالنے کا سوچ رہے ہوتے ہیں، جبکہ یہاں کوگوں کو سسٹم کے اندر رہتے ہوئے کام کرنے کا شوق ہے۔ اب اگر سسٹم کی دس لوازمات ہیں تو یہ لوگ دس کہ دس پوری کریں گے۔ ڈنڈی مارنے کا ایک اتفاق بھی مجھے نہیں ہوا۔